فیضان مصطفٰی اور ان کی اہلیہ دونوں اسٹوڈنٹ ویزے پر آسٹریلیا میں تھے۔ کینسر کے مرض میں مبتلا والد کی نازک حالت کے باعث فیضان کو مارچ کے شروع میں پاکستان جانا پڑا جبکہ ان کی بیوی اور ڈیڑھ سالہ بچہ آسٹریلیا میں رہ گئے۔ واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے فیضان کی اہلیہ انعم فیضان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر فیضان کی آسٹریلیا واپسی کی ۳۰ مارچ کی بکنگ تھی ۔ آسٹریلیا میں سفری پابندیوں اور لاک ڈاون کی خبروں کے بعد انہوں نے اپنا ٹکٹ تبدیل کروا کر ۲۰ مارچ کا کروالیا مگر کراچی ائیرپورٹ پر انہیں فلائیٹ پر سوار ہونے سے روک دیا گیا کیونکہ افیضان کی پرواز آسٹریلیا میں داخلے پر پابندی کے کچھ گھنٹوں بعد آسٹریلیا پہنچ رہی تھی۔ اس دن سے فیضان اور ان کی اہلیہ انعم دونوں پریشانی کا شکار ہیں اور ہر طرح سے معلومات اور مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ عارضی ویز وں پر آنے والے کو ویزہ اس وقت جاری ہوتا ہے جب وہ اس بات کے کافی ثبوت پیش کر دییتے ہیں کہ ان کے پاس آسٹریلیا میں قیام کی دوران اخراجات کے لئے کافی فنڈز موجود ہیں اس لئے جو لوگ یہاں مالی پریشانی میں ہوں انہیں پروازیں بحال ہوتے ہی واپس اپنے وطن چلے جانا چاہئے۔ حکومت کے اس بیان کے بعد آسٹریلیا میں پریشانی کا شکار اسٹوڈنٹ ویزہ پر آنے والوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔
آسٹریلیا کی حکومت نے ۲۰ مارچ سے تمام عارضی ویزہ رکھنے والے افراد کی ملک میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ جس کے باعث اب فیضان پاکستان سے آسٹریلیا نہیں آ سکتے اور پروازیں بند ہونے کے باعث انعم اپنے بیٹے کے ساتھ سڈنی میں تنہا یہاں درپیش مسائیل سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اس وقت ہماری سب سے بڑی پریشانی مکان کا کرایہ اور بلوں کی ادائیگی ہے
سڈنی میں مقیم انعم کا کہینا ہے کہ وہ کرایہ میں چھوٹ کے لئے رئیل اسٹیٹ سے رابطہ کر رہی ہیں مگر اس کے علاوہ بھی بہت سے اخراجات ہیں ۔ فیضان نے پاکستان سے سے ایس بی ایس اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس غیر یقینی صورتحال کے باعث اس وقت ان کی فیملی سخت ذہنی تناو کا سامنا کر رہی ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی پہلی سالگرہ ساتھ منائی تھی مگر حالیہ پابندیوں کے باعث انہیں معلوم نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کی دوسری سالگرہ ساتھ منا سکیں گے یا نہیں۔

Family not sure if they will be able to celebrate next birthday of their son together Source: Supplied
فیضان کا کہنا ہے انہوں نے آسٹریلین حکومت سے رابطہ کیا تھا تاکہ ان کے کیس کو خصوصی حالات میں استثنٰی دیتے ہوئے انہیں آسٹریلیا آنے کی اجازت دی جائے مگر ان کی یہ درخواست حکومت نے قبول نہیں کی اور صورتحال کی بہتری تک انہیں پاکستان میں رہنے اور انتظار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
اس وقت فیضان کی فیملی کےدرمیان رابطے کا دارومدار انٹرنیٹ پر ہے

Source: Supplied
فیضان اور اُن کی اہلیہ دونوں کا اسٹوڈ نٹ ویزہ اگلے سال ستمبر تک ہے اس لئے فیملی کو فوری طور پر ویزے کے مسئلے کا سامنا نہیں مگر خاندان کا بٹ جانا، دونوں ممالک کے درمان سفر کا فوری امکان نہ ہونا، فیضان کی اہلیہ اان کے دو سالہ بیٹے کا آسٹریلیا میں تنہا رہنا اور دن بدن بڑھتے ہوئے بلوں کی ادائیگی اس خاندان کے لئے سب سے زیادہ پریشان کُن ہے۔
فیضان کہتے ہیں کہ آسٹریلین حکومت کے اب تک کے کسی پیکیج میں عارضی ویزے والوں اور اسٹوڈنٹ کے لئے کوئی مراعات نہیں دی گئی ہیں جبکہ یہ طالب علم حکومت کو فیسوں کی صورت میں ایک بہت بڑی رقم ادا کرتے ہیں اور آسٹریلیا کے لئے ایجوکیشن ایک بڑی صنت کا درجہ رکھتی ہے۔
آسٹریلین حکام عارضی اور اسٹوڈنٹ ویزہ رکھنے والوں کی امداد کے لئے بھی مراعات کا اعلان کریں اور انہیں مکان کا کرایہ اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کی چھوٹ دی جائے
sbs.com.au/coronavirus
کرونا وائیرس کے بارے میں ہدایات
وفاقی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی علامات، ہلکی بیماری سے لے کر نمونیا کی علامات کی طرح ہوسکتی ہیں۔علامات میں بخار، کھانسی،
خراب گلا، تھکن یا سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔
اگر آپ میں بیرونِ ملک سے واپسی پر چودہ دن کے اندر یہ علامات پیدا ہوتی ہیں یا کسی کووڈ ۔ ۱۹ سے متاثرہ مریض سے رابطے میں آئے ہیں، تو فوری طبّی امداد حاصل کریں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو ٹیسٹ کرانا ہے تو اپنے معالج سے رابطہ کریں یا قومی کرونا وائرس ہیلتھ معلوماتی ہاٹ لائن پر فون کریں۔ فون نمبر۔ 1800020080 کرونا وائرس سے متعلق مزید خبریں اور معلومات ایس بی ایس اردو کی ویب سائٹ پر حاصل کریں۔