چھے سال پہلے فلیپین سے تعلق رکھنے والی جین ارونا سڈنی آئی تھیں۔
پچیس سالہ خاتون نے کئی ممالک کو نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاںچا لیکن انھیں آسٹریلیا سب سے بہتر لگا۔
میرے خیال میں اس ملک میں صحت کے نظام کو دیکھتے ہوئے رجسٹرڈ نرسوں کے لئے بہت مواقع موجود ہیں۔ لوگ ایک دوسری کی مدد کرتے ہیں اور تعلیم کا معیار بھی بہت اچھا ہے۔
جین نے دو ہزار سولہ میں نرسنگ کی تعلیم یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی سے حاصل کی لیکن ان کے لئے رجسٹرڈ نرس کی ملازمت ڈھونڈنا آسان نہ تھا۔
بینالاقوامی طلبا کے لئے بہت ہی کم مواقع موجود ہیں خاص طور پر ویزا کی وجہ سے، اسی لئے ملازمت حاصل کرنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑی۔
جین اب ’یونائٹنگ دا میرئین‘ ایج کئیر ہوم میں میں کام کرتی ہیں جہاں سے انھیں چار سالہ اسپانسرڈ ویزا ملا ہے۔
ان کا ارادہ ہے کہ وہ آسٹریلیا میں ہی مستقل سکونت اختیار کریں گی۔
وفاقی حکومت کے مطابق رجسٹرد نرسنگ ایک اہم ہنر ہے جو مقامی افراد سے پُرنہیں کیا جاسکتا ہے۔ بیرونِ ملک سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے اس ہنر کو ’پرائرٹی اسٹیٹس‘ حاصل ہے اور عارضی ویزا جلد مل جاتا ہے۔

Source: AAP
موجودہ سال حکومت نے ستمبر دو ہزار بیس میں ’پرائرٹی مائگریشن اسکلڈ آکیوپیشن لسٹ‘ جاری کی تھی جس میں سترہ پیشوں کو ’پرائرٹی اسٹیٹس‘ دیا گیا ہے۔ ان میں چیف ایگزیکیٹیو، مینیجنگ ڈائریکٹر، کنسٹرکشن پراجیکٹ مینیجر، میکینکل اینجینئیر، ڈاکٹر، سائکائٹرسٹ اور آئی ٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
اس لسٹ کو کاروباری افراد نے پسند کیا ہے جو امید کر رہے ہیں کہ کووڈ۔۱۹ کے بعد معیشت میں کچھ بہتری آئے۔
آسٹریلین انڈسٹری گروپ کے سربراہ انس ویلوکس کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی ہنر مند افراد کے ذریعے ہی ہوگی۔ بیرونِ ملک لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کی آسٹریلیا کو ضرورت ہے۔
ان میں سے چند ویزا ایسے ہیں جن کے ذریعے بعد میں پرمننٹ ریزیڈینسی کے لئے درخواست دی جاسکتی ہے۔
لیکن امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے سابق ڈپٹی سیکریٹری ابوالرضوی کا کہنا ہے کہ بظاہر تو یہ ایک اچھی پالیسی ہے لیکن وبا کے دوران کارآمد نہیں ہوگی۔
’بیرونِ ملک سے آنے والے افراد کی تعداد پر حد متعین ہے، جبکہ کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے لوگوں پر سفری پابندیاں ہیں، اس لئے یہ ناگزیر ہے کہ وہ لوگ جو پہلے ہی سے آسٹریلیا میں موجود ہیں انھیں پرمننٹ ویزا مل سکے گا۔‘
وفاقی حکومت امید کررہی ہے کہ اس سال دو تہائی پرمننٹ ویزے ان لوگوں کو ہی ملیں گے جو آسٹریلیا میں عارضی ویزے پر موجود ہیں جبکہ نئے مائگرینٹس میں کمی کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سینٹر فار ایکینومک ڈیولپمنٹ آف آسٹریلیا کے ماہرِ معیشت، جیرڈ بال کا کہنا ہے کہ اگلے چند سال تک معیشت کو اس کا بہت نقصان ہوگا۔
وفاقی بجٹ کے مطابق اس سال ملک کی آبادی میں ایک عشاریہ چھے فیصد کے بجائے صرف سفر عشاریہ دو فیصد ہی اضافہ متوقع ہے۔ اس لحاظ سے تقریبا آسٹریلیا کی آبادی میں دس لاکھ افراد کی کمی ہوگی۔
ویلاکس کا کہنا ہے کہ حقیقت یہی ہے کہ مائگریشن کے اعداد میں بہتری کے لئے ضروری ہے کہ آسٹریلیا کے بینالاقوامی بارڈر کو کھولا جائے۔
’بارڈر بند ہونے کی وجہ سے لوگ یا توآسٹریلیا آنے کا ارادہ ہی نہیں کریں گے یا آ ہی نہیں پائیں گے اور اسی لئے ضروری ہے کہ ہم جلد سے جلد بارڈر کو کھولیں۔‘
’مائگریشن کاروبار کے لئے خون کی حیثیت رکھتا ہے، اسی لئے ہمیں اس سلسلے میں جلد سے جلد اقدامات لینے ہوں گے۔‘
لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آسٹریلیا کو ہنرمند افراد کے لئے ایک پرکشش ملک کے طور پر نظر آنا چاہیئے جہاں فلاحی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
’عارضی ملازمین کی مدد کے لئے حکومت کو کچھ کرنا چاہیئے۔ انہی افراد نے پچھلی تین دہائیوں میں وفاقی بجٹ کو مالی امداد فراہم کی ہے۔‘
جین کا کہنا ہے کہ نرسنگ کی ملازمت ہر کوئی نہیں کرسکتا لیکن انہیں یہ بہت پسند ہے اور وہ آسٹریلیا کو ہی اب اپنا گھر سمجھتی ہیں۔