پاکستانی خاندان کی فلائٹ دو گھنٹے تاخیر کا شکار کیا ہوئی، آسٹریلیا میں ان کی زندگی ٹھہرگئی۔

لیبر اور گرینز کا حکومت سے کہنا ہے کہ جن عارضی ریزیڈنٹس کے آسٹریلیا میں گھر، خاندان یا نوکریاں ہیں انہیں بیرونِ ملک سے واپس آنے دیا جائے۔

thumbnail_c658e5a9-399b-4445-a963-c1d5e2d514ea.jpg
لیبر اور گرینز کا حکومت سے کہنا ہے کہ جن عارضی ریزیڈنٹس کے آسٹریلیا میں گھر، خاندان یا نوکریاں ہیں انہیں بیرونِ ملک سے واپس آنے دیا جائے۔

دو گھنٹے وہ فرق تھا جو عروج عثمان کی آسٹریلیا میں زندگی یا ملک سے باہر مستقل پریشانی کی زندگی کا سبب بنا۔

وکٹوریہ کے علاقے پیکینہیم میں دو بچوں کی والدہ اپنے شوہر، دانش غوری کے ساتھ اسکلڈ ویزا پر چار سال سے رہ رہی ہیں۔

پاکستانی خاندان کرائے کے گھر میں رہتا ہے اور دانش غوری ٹیلی کمیونیکیشن میں کام کرتے ہیں۔

چھبیس جنوری کو عروج دو بچوں کے ساتھ اپنے والد سے ملنے پاکستان گئیں جنہیں کینسر کی بیماری تھی۔ عروج کے شوہر آسٹریلیا میں ہی رہے۔

جب وزیرِاعظم اسکاٹ موریسن نے اعلان کیا کہ آسٹریلیا اپنے شہریوں، پرمننٹ ریزیڈنٹس اور ان کے خاندان والوں کو چھوڑ کر باقی افراد کے لئے اپنے بارڈر بند کررہا ہے تو انہوں نے فوری طور پر پہلی فلائٹ سے آسٹریلیا آنے کی کوشش کی۔

لیکن پہلی فلائٹ دو گھنٹہ لیٹ ہونے کی وجہ سے ان کی کونیکٹنگ فلائٹ چھوٹ گئی۔
The family communicate via video chat.
The family communicate via video chat. Source: Supplied
بیس مارچ رات کے نو بجے سے پہلے جب آسٹریلیا کا بارڈر بند ہورہا تھا تو عروج عثمان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ پاکستان سے آسٹریلیا آسکیں۔

"یہ صرف دو گھنٹے کا معاملہ تھا اور اس کی وجہ سے ہمارا مستقبل تباہ ہوگیا ہے۔" یہ کہنا ہے عروج کا جو اس وقت اپنے بچوں کے ساتھ حیدر آباد میں ہی پھنسی ہوئی ہیں۔

"میری بچی جب سو کر اٹھتی ہے تو وہ سب سے پہلے بابا، بابا کہتی ہے۔ میرا بیٹا اپنے والد کو فون پر دیکھ کر روتا ہے، میرے شوہر میرا سب کچھ ہیں۔"

عروج عثمان ان سینکٹروں عارضی ویزا ہولڈرز کی طرح ہیں، جن میں بین الاقوامی طلبا، کام کے دوران چھٹی پر ملازمین اور ہنرمند ملازمین شامل ہیں، جو حکومت کے بین الاقوامی سفر پر پابندی کے بعد بیرونِ ملک میں پھنس گئے ہیں۔

لیکن اب جس طرح معیشت کو بحال کرنے کے لئے کھولا جارہا ہے، ان افراد کے سفر کی اجازت کی بات بھی کی جارہی ہے جن کی زندگیاں آسٹریلیا سے جڑی ہیں۔
گرینز کے سینیٹر نِک میکِم  نے  وزیرِ امیگریشن ایلین ٹج کو لکھا ہے کہ عارضی ویزا ہولڈرز کو پرمننٹ ویزا ہولڈرز کی طرح آسٹریلیا میں واپیس آنے کی اجازت دی جائے۔

"اسکلڈ ویزا پر کام کرنے والے کئی افراد ایسے ہیں جنہوں نے بہت محنت سے کام کیا ہے اور آسٹریلیا کو کئی سال تک ٹیکس دیا ہے۔"

نک میکم کا کہنا ہے کہ برجنگ ویزا پر پھنسے وہ افراد جو بیرونِ ملک پھنسے ہوئے ہیں وہ دوبارہ ویزا نہیں لے پارہے جس سے لگتا ہے کہ وہ پھر آسٹریلیا نہیں آسکیں گے۔

وفاقی حکومت کے مطابق سفر پر پابندی کم سے کم تین سے چار ماہ تک برقرار رہے گی۔

بین الاقوامی طلبا کی آسٹریلیا واپسی کے لئے حکومت غور و فکر تو کررہی ہے لیکن دیگر عارضی ویزا ہولڈرز کے لئے کوئی پلان سامنے نہیں آیا ہے۔

پچھلے ہفتے اس مسئلے پر سوال کے جواب میں، ایلین ٹج کا کہنا تھا کہ وہ "بارڈر کو مضبوط" رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ پارلیمنٹ میں ایک پیٹیشن لائی گی ہے جس پرعارضی ویزا ہولڈرز کے آسٹریلیا میں واپسی کے لئے گیارہ ہزار سات سو دستخط کئے گئے ہیں۔
اپنے خط میں سینیٹر میکم نے لکھا ہے کہ ان افراد کو "کمپیشینٹ (شفقت)" وجوہات کی بنا پر آنے دیا جائے۔

"کم سے کم سفری پابندی کی چھوٹ کی درخواست کی اجازت دی، خاص طور پر ان افراد کے لئے جن کے گھر یا نوکری آسٹریلیا میں ہیں یا جن کے اہلِ خانہ کو آسٹریلیا واپس آنا ہے۔" 

لیبر ہوم افئیرز کی ترجمان کرسٹینا کینیلی نے بھی حکومت سے کہا ہے کہ وہ نرمی دکھائے  اور وہ عارضی ویزا ہولڈرز جو قرنطینہ کے لئے پورا اترتے ہیں اور اپنی مالی امداد کرسکتے ہیں انہیں واپسی کے لے مستثنیٰ دیا جائے۔

پیر تک آسٹریلین بارڈر فورس نے آسٹریلیا کے لئے سفر کرنے والوں کی سات ہزار چھے سو اکیانوے درخواستوں کو جانچا تھا۔

مہینے کے شروع میں آسٹریلین بارڈر فورس کے کمشنر مائیکل آوٹریم نے سینیٹ کمیٹی کا بتایا تھا کہ کمپیشینٹ گراونڈ پر سفر کرنے والی نوسوچھیانوے درخواستوں کا جانچا گیا ہے جن میں سے آٹھ سو ایک کو منظورکردیا گیا ہے۔

لیکن عروج عثمان کے مطابق ان کی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔


آسٹریلیا میں لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطے کے دوران کم ازکم ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھنا چاہیئے۔ 

اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کا کسی طرح وائرس سے رابطہ ہوا ہے تو فورا اپنے ڈاکٹرکو کال کریں تاہم ڈاکٹر کے پاس جانے سے گریز کریں یا پھر کرونا وائرس انفارمیشن ہاٹ لائن 080 180020 پر رابطہ کریں۔

اگر آپ کو طبی ایمرجنسی یا سانس لینے میں دشواری پیش آرہی ہے تو فری ہیلپ لائن 000 پر رابطہ کریں

ایس بی ایس آسٹریلیا کی متنوع آبادی کو کووڈ ۱۹ سے متعلق پیش رفت کی آگاہی دینے کے لئے پرعزم ہے ۔ یہ معلومات تریسٹھ زبانوں میں دستیاب ہے۔ 

 

 


شئیر
تاریخِ اشاعت 20/05/2020 9:48am بجے
شائیع ہوا 20/05/2020 پہلے 10:05am
تخلیق کار Maani Truu