امریکہ اور برطانیہ نے ویکسین کی "ایمرجنسی" منظوری دے دی ہے جس کے بعد سے ان ممالک کے عوام میں ویکسین لگنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
آسٹریلیا میں ایک دفعہ پھر سے کرونا کے کیسز میں اضافہ ہوگیا ہے جس کے باعث عوام فکرمند ہیں کہ ملک میں ویکسین کب تک آئے گی۔
وفاقی حکومت نےیقین دہانی کرائی ہے کہ عوام کے لئے ویکسین ضرور آئے گی اور اس سلسلے میں اگلے سال کے پہلے تین ۔مہینوں میں ویکسین کی تقسیم ہوگی۔

Allergic reactions to the Pfizer/BioNtech vaccine are said to be incredibly rare. Source: Photonews
امریکہ اور برطانیہ کے مقابلے میں آسٹریلیا نے ویکسین کی منظوری اب تک کیوں نہیں دی؟
یونیورسٹی آف ساوتھ آسٹریلیا کے پروفیسر ایڈرئین ایسٹرمین کا کہنا ہے کہ جواب بہت سیدھا سادھا ہے۔ "ہمیں جلدی نہیں۔"
پروفیسر ایسٹرمین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں فائزر / بایواینٹیک ویکسین اور امریکہ میں بھی "ایمرجنسی" منظوری دی گئی ہے حالانکہ تیسرے مرحلے کے ٹرائلز ہونا باقی ہیں۔ لیکن وہاں پر ویکسین کی طلب بہت زیادہ ہے۔
آسٹریلیا میں ویکسین لگوانے کا عمل کب سے شروع ہوگا؟
"ہماری ریگولیٹری اتھارٹی ویکیسن کی ٹرائل مکمل ہونے کا انتظار کررہی ہے، جس کے بعد ویکسین کی جانچ کی جائے گی اور پھر ویکسین لگوانے کا عمل شروع ہوگا۔"
یہ بات پروفیسر ایسٹرمین نے سڈنی کے نئے کلسٹر سے پہلے کہی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ویکسین اگلے سال مارچ تک دستیاب ہوگی۔
کس کو سب سے پہلے ویکسین لگے گی؟
آسٹریلیا کے عارضی چیف میڈیکل آفیسر پال کیلی نے تصدیق کی ہے کہ ویکسین کو ترجیحی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے گا، جن میں سب سے پہلے باری ضعیف اور معمر افراد کی ہوگی اور اس کے بعد ان لوگوں کی جنہیں پہلے ہی سے بیماریاں ہیں۔
اس کے بعد ہیلتھ ورکز اور ایمرجنسی ورکز کی باری ہوگی۔
آسٹریلیا نے کون سے ویکسین خریدی ہے؟
کوئنزلینڈ یونیورسٹی کی ویکسین ٹرائل میں ناکامی کہ بعد اب آسٹریلیا کے پاس تین طرح کی ویکسین دستیاب ہوں گی۔ ہر شخص کو دو مرتبہ ویکسین لگے گی جو ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لئے کافی ہونی چاہیئے۔

Source: SBS News
آسٹرازینیکا:
حکومت نے آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسٹرازینیکا کے اشتراک سے بننے والی ویکسین کی تقریبا تریپن ملین خوراک منگوائی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آسٹرازینیکا کی ویکسین نوّے فیصد تک اثرانداز ہے۔

Source: SBS News
نوواویکس:
امریکی کمپنی نوواویکس سے اکیاون ملین ویکسین کی خورات منگوائی گئی ہے۔
"یہ ایک پروٹین ویکسین ہے جس کی تیسری ٹرائل کا عمل شروع ہوچکا ہے۔"
یہ ویکسین مئی یا جون تک دستیاب ہوگی۔

Source: SBS News
فائزر بایو این ٹیک:
فائزر کی ویکسین آسٹریلیا میں سب سے پہلے دستیاب ہوگی۔ ایک کروڑ سے زائد ویکسین جسے ایم آر این اے کہا جارہا ہے اگلے سال کے شروع میں ہی آسٹریلیا دستیاب میں ہوگی۔
آسٹریلین میڈیکل ایسوسئیشن کے نائب صدر ڈاکٹر کرس موئے کا کہنا ہے کہ مختلف طرز کی ویکسین ہونے سے آسٹریلیا کو فائدہ ہوگا۔

The Pfizer/BioNTech vaccine must be kept at very cold temperatures. Source: Getty
دوستانہ انداز میں بات کی جائے تو بطور ایک قوم ہم ایک ویکسین کو کانٹا لگا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں جو سب سے زیادہ کامیاب ہو ۔انہوں نے کہا کہ حکمت عملی کے مطابق ایک ہی ٹوکری میں سارے انڈے رکھ دینا درست نہیں ہے "
لیکن لیبرز کی جانب سے صرف تین معاہدے کرنا صحیح عمل نہیں ہے بلکہ صحیح بین الاقوامی طریقہ یہ ہے کہ پانچ سے چھ معاہدے کئے جائیں ۔"
کیا فائزر کی ایکسین کو محفوظ (اسٹور) کرنا مشکل ہے ؟
جی ہاں ، ترسیل کے وقت اس کو ہمہ وقت منفی سترڈ گری سیلس پر رکھنا ضروری ہے جو ذرا پیچیدہ عمل ہے ۔
اس کو اسکیز کی طرز کے ایک خصوصی ڈبے میں رکھ کر ترسیل کیا جانا ہے جس میں مایا نائٹروجن رکھی گئی ہو تاکہ اس کو مستقل برف کی حد تک ٹھنڈا رکھا جا سکے ۔ پروفیسر ایسٹر مین نے بتایا ۔
کیا آسٹریلیا رسد کے ان اضافی چیلنجز کو پورا کر سکے گا اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ایسٹر مین کا کہنا تھا کہ یہ کیا جا سکتا ہے ۔
فائزر پورے آسٹریلیا میں اس کی ترسیل انہی خصوصی اسکیز میں کرے گا اگرچہ یہ اضافی کولڈ چین کی شرط کے باعث زیادہ مشکل ہے ، اس کو آسٹریلیا میں منظم (مینیج )کرنا آسان ہے۔
ایم آر این اے ویکسین، فائزر/ بیون ٹیک ویکسین کی طرح آسٹریلیا میں تیار کر نا ممکن نہیں جس کی وجہ اس کی بالکل نئی ٹیکنالوجی ہے ۔
پروفیسر ایسٹرمین کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں اپنی ذاتی ایم آر این اے ویکسین بنانے کی بات کی جا رہی ہے اور میرے خیال میں یہ مستقبل کی کسی عالمی وبا کے لئے بہت اچھا آئیڈیا ہے ۔
یو کیو/سی ایس ایل ویکسین کے ساتھ کیا ہوا ؟
آسٹریلیا کی خود ویکسین بنانے کی کوششوں کو دھچکا لگا ، اوررواں ماہ یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ کو اس دوڑ سے باہر ہونا پڑا، جسکی وجہ اس دوز کے لئے حصہ لینے والوں کے ایچ آئی وی نتائچ جعلی طور پوزیٹو آنا تھا ۔
یونیورسٹی آف سڈنی میں متعددی امراض کے ماہر ڈاکٹر پروفیسر رابرٹ بوئے کا کہنا تھا کہ اس سے ایچ آئی وی مرض کے انفیکشن کا خطرہ نہیں تھا ۔
اصل میں جو استعمال ہو رہا تھا وہ ایک تھوڑا سا پروٹین تھا جس کا اصل متعددی وائرس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
لیکن سائنسدانوں کو تشویش یہ تھی کہ اگر ویکسین سے مکمل طور پر جعلی مثبت ایچ آئی وی نتائج سامنے آتے ہیں تو بھی یہ آسٹریلیا کے ایچ آئی وی ٹیسٹنگ پروگرام کو متاثر کر سکتا ہے اس کے ساتھ ہی خون عطیہ کرنے کے عمل اور عوام کے اعتماد کو متزلزل کر کے انہیں تشویش میں ڈال سکتا ہے ۔
ویکسین حاصل کرنے سے متعلق آسٹریلین کیا سوچتے ہیں ؟
کسی بھی ویکسینیشن مہم کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس معاملے میں بہتر معلومات رکھتی ہو اور اس کے استعمال کے لئے تیار ہو ۔
میلبرن کے جی پی ڈاکٹرابھیشیک ورما کا کہنا ہے کہ سال ایک بہترین حصہ اپنے مریضوں کے لئے کووڈ 19 سے متعلق سوالات کے جواب دینے کے بعد اب وہ اس کی ممکنہ ویکسین کے بارے میں لوگوں کی تواہمات دور کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا ہمیں ویکسین سے متعلق بہت سے سوالات مل رہے ہیں۔ کیا یہ محفوظ ہوگی ؟ کیا اس کا استعمال لازمی ہوگا؟ اس میں کوئی مستقبل کا خطرہ تو نہیں ہے ؟
اس وقت بہت سے مریضوں کے ذہن میں یہ بات خوف کا باعث ہے کہ ویکسین کی دوڑ میں ایسا تو نہیں کہ حفاطت کے پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس سلسلے میں جو کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مریضوں سے کھل کر مکالمہ کرتے ہوئے ان کی تشویش دور کریں
ہم کلینکل ٹرئلز اور محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے ذریعے یہ اس موقع سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، ہم ثبوتوں پر مبنی عمل فروغ دیکر اسک ی یقین دہانی کر رہے ہیں کہ ایکسین محفوظ اور کارآمد ہے ۔
نومبر میں ایک آسٹریلین یونیورسٹی کی جانب سے 3،061 افراد کا سروے کیا گیا جن میں سے 5۔58 فیصد بالغ افراد کا کہنا تھا کہ وہ ویکسین سدتیاب ہونے پر ضرور لگوائیں جبکہ چھ فیصد کی رائے تھی کہ وہ بالکل ویکسنی نہیں لگوائیں گے ۔
کیا تمام آسٹریلین کمیونٹیز ترسیل کے عمل میں شامل ہونگی؟
ڈاکٹر ورما کے مطابق کچھ تاریک وطن گروہوں کے لئے زبان کی رکاوٹ یا ثقافتی طور پر صحت کی سہولیات کا درست نہ ہونا ان کو اکثر گفتگو سے باہر کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر ورما نے کہا کہ ان کو روایتی طور پر الگ ہونے کی وجہ سے اکثر بنیادی نگہ داشت اور عمومی پریکٹیس میں شامل کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ سو مجھے لگتا ہے کہ ان لوگوں میں کچھ مخصوص رکاوٹیں ہیں کیونکہاگر ان کو صحیح ذرائع سے درست معلومات نہ ملے تو یہ غلط معلومات جلد حاصل کر سکتے ہیں ۔
ریاست اور وفاقی حکومت کے اداروں کو عالمی وبا کے دوران آستریلیا کی ثقافتی اور لسانی طور پر متنوع کمیونٹیز سے بات چیت میں خرابیوں کے باعث کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ معلومات کے غلط مترجم سے لیکر ثقافتی نمائندوں مشاورت نہ کرنے تک ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ غیر سرکاری معلومات کی جانب پھر گئے ۔
اسلامک کونسل آف وکٹوریہ کے ترجمان ، عدیل سلمان کا کہنا ہے کہ ویکسین سے متعلق بہت سی غلط معلومات آن لائن موجود ہے اور ویکسین سے متعلق اس غلط معلومات کے خلاف جنگ کا سامنا صرف آستریلیا کی اقلیتی کمیونٹیز کو ہی نہیں بلکہ پوری آبادی کو ہے ۔
" میرے خیال میں درست پیغام موثر انداز میں پہنچنا چاہئے کیونکہ یہاں بہت خوف و ہراس پھیل سکتا ہے " انہوں نے کہا " ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارا پیغام ان تمام (خوف و ہراس ) کو رد کر دے اور ہمارے پاس یہ پیغام درست انداز میں بھیجنے کے لئے ایک با اعتماد ذریعہ ہو "
انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ویکسین کی ترسیل سے پہلے ایک معلوماتی مہم کا آغاز کرے ۔
وزیر صحت گریک ہنٹ کے ایک ترجمان نے ایس بی ایس کو بتاہا کہ کووڈ 19 کی جوابدہی کے لئے حکومت اہم کثیر لاثقافتی اداروں اور حصہ داروں (اسٹیک ہولڈرز)سے مشاورت اور تجاویز کا حصول جاری رکھے گی جس میں ویکسین کی ڈیلولپمنٹ اور فراہمی کے لئے مواصلاتی حکمت عملی بھی شامل ہوگی ۔
حکومت نے حال ہی میں ثقافت اور لسانی تنوع والی کمیونٹیز کے لئے صحت کا مشاورتی گروپ بھی تشکیل دیا ہے جو پہلی مرتبہ رواں ماہ ملاقات کر چکا ہے ۔
کیا پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں ؟
یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ میں متعددی ماراض کے پروفیسر پال گریفن کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں ویکسین کی ترسیل پیچیدہ ہو سکتی ہے ۔
" میرا خیال ہے کہ رصد اور اس کے ساتھ ہچکچاہٹ وہ دو اہم مسائل ہونگےجن کا آگے بڑھنے پر ہمیں سامنا کرنا ہوگا۔ اور مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم نے ان سے نمٹنے کے لئے ابھی تک کافی کچھ کیا ہے "انہوں نے کہا ۔
"رصد بہت ہی زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے درحقیقت ہم نے ایسا کچھ پہلے کبھی کیا ہی نہیں ہے ۔"
ہمارے پاس فلو(ویکسین) کی معقول ترسیل موجود ہے اور اس کولوگوں کو دینے کے متعدد طریقے ہیں اس کے باوجود ہم کبھی بھی اس سطح پر نہیں پہنچ پائےجس شرح کی ہمیں کووڈ ویکسین کے لئے خواہش ہے ۔ انہوں نے کہا
اس کے ساتھ ہی ریکارڈ کیپنگ اور لوگوں کو یہ ثبوت فراہم کرنے کی صلاحیت کہ ان کو ویکسین دے دی گئی ہے بہت اہم ہے ۔ جو ویکسین ہم لوگوں کو دینا شروع کریں گے اس کی کم از دو خوراکیں ایک شخص کو دینا ہونگی اور اگر لوگ پہلی خوراک کے بعد واپس نہیں آتے تو ہم حفاظت کی سطح کو کم کر رہے ہیں "
کیا ویکسین کام کرے گی ؟
ڈاکٹر موئے کا کہنا ہے کہ ویکسینیشن پروگرام کے طویل المعیاد اور قلیل معیاد اہداف میں مزید وضاحت درکار ہے ۔
یہ آپ کو بیمار ہونے سے روکنے میں موثر ہیں لیکن اس وقت ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آپ (وائرس) لگنے سے روکنے اور اسے آگے کسی اور کو لگانے کے خلاف کتنی موثر ہے ۔ سو ہو سکتا ہے کہ یہ ایک چیز میں اچھی ہوں اور ایک میں نہ ہوں ۔ انہوں نے کہا ۔
ہم صرف فرد واح کو محفوظ رکھنے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ اس کا پھلاوکمیونٹی میں روکنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں ۔ مجموعی طور پر ان تمام ویکسینز کی کچھ اچھائیں اور برائیاں ہیں اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ابھی ظاہر نہیں ہوئیں جیسا کہ ان کے اثرات کب تک رہیں گے ۔
ہم مزید کب جان سکیں گے ؟
پروفیسر کیلی کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں ویکسین ترسیل سے متعلق مکمل معلومات جنوری میں عوام کے سامنے لائی جائیں گی ۔
People in Australia must stay at least 1.5 metres away fromothers. Check your jurisdiction's restrictions on gathering limits. If you are experiencing cold or flu symptoms, stay home and arrange a test by calling your doctor or contact the Coronavirus Health Information Hotline on 1800 020 080.
Please check the relevant guidelines for your state or territory: , , , , , , , .