انسانی جسم میں ذیابطیس کی زیادتی بہت سی بیماریوں اور پیچدگی کا باعث ہو سکتی ہے ۔ اس ذیابطیس کو ناپنے اوراس کو برداشت کرنے کی اہلیت کا اندازہ لگانے کے لئے گلوکوز ٹالرینس ٹیسٹ کیا جاتا ہے ۔ اس تشخیص کا ایک خآص طریقہ عمل ہے اور دوران حمل یہ انتہائی ضروری ہے کہ یہ ٹیسٹ کیا جائے تاکہ حمل کے دوران پیچیدگیوں سے بچا جا سکے ۔ آسٹریلیا میں جی ٹی ٹی کا طریقہ کار پاکستان سے کچھ مختلف ہے جو نئے آنے والے امیگرینٹس کے لئے انوکھا ثابت ہو سکتا ہے ۔
ڈاکٹر افشاں میاں جو میلبرن میں فرائض انجام دیتی ہیں اور بطور شئیرڈ کئیر بھی خدمات انجام دیتی ہیں اس سلسلے میں کہتی ہیں کہ دوران حمل ایک قدرتی نظام کے تحت پلیسنٹا کچھ ایسے ہارمون بنا سکتا ہے جو ذیابطس کی وجہ بن جائیں اس کی تشخیص کے لئے ایک مکمل طریقہ کار موجود ہے ۔ یہ ٹیسٹ عموما حمل کے چھبیسویں سے اٹھائیسویں ہفتے کے دوران ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر افشاں میاں نے ایس بی ایس کو گکولوز ٹالرینس ٹیسٹ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس ٹیسٹ کے لئے حاملہ خاتون کو آٹھ گھنٹے تک کھانے سے پرہیز کے بعد ایک میٹھا مشروب پلا کر وقفے وقفے سے خون میں ذیابطیس کی مقدار ناپی جاتی ہے ۔ اس کے بعد اگر خاتوں کے خون میں ذیابطیس کی مقدار زیادہ آئے تو دوران حمل اس کی باقاعدہ منجمنٹ کی جاتی ہے ۔ جس میں خوارک کے استعمال میں اعتدال چینی یا میٹھی غذا سے پرہیز اور روزانہ اپنی ذیابطیس ٹیسٹ کرنا شامل ہے ۔ ڈاکٹر افشاں کا کہنا ہے کہ اگر دوران حمل ذیابطیس ہو جائے اور درست انداز میں علاج یا منجمنٹ نہ کی جائے تو یہ پیدا ہونے والے بچے اور حاملہ خاتون دونوں کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے ۔
دوسری جانب سدرہ قیوم جو دوران حمل اس ٹیسٹ سے گزریں کہتی ہیں کہ اس ٹیسٹ کا تجربہ ان کے لئے انتہائی برا رہا ۔ اس ٹیسٹ میں پلایا جانے والا مشروب ذائقے میں بہت خراب ہوتا ہے جو اکثر خواتین سے برداشت نہیں ہو پاتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو بظاہر لگتا ہے کہ اس ٹیسٹ کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے ۔ سدرہ قیوم نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ٹیسٹ میں دئیے جانے والے مشروب کے برعکس اگر قدرتی اجزاء یا پھلوں کے رس پلائے جائیں تو شاید یہ ٹیسٹ قابل برداشت ہو جائے ۔
ڈاکٹر افشاں کا کہنا ہے کہ دوران حمل اگر ذیابطیس کی تشخیص نہ کی جائے اور اس کو کنٹرول نہ کیا جائے تو خاتون کی صحت شدید متاثر ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا ذیابطیس ہونے کی صورت میں مریض کو اس کی منجمنٹ ادویات اور غذا دونوں کے ذریعے سکھائی جاتی ہے ۔ساتھ ہی ڈاکٹر افشاں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی صورت میں مریض اور اس کے اہل خانہ کا طبی عملے سے تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔