آسٹریلوی ادب و آداب کیا ہیں اور غلط فہمی سے کیسے بچا جا سکتا ہے ؟

GettyImages-1370477953.jpg

Australia boasts a unique culture and rules of etiquette that merge the diverse nature of our population. Photo Credit: Getty Images/zoranm

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

دنیا میں سب سے زیادہ کثیر الثقافتی قوموں میں سے ایک کے طور پر، آسٹریلیا ادب و آداب کے غیر واضح اصولوں کا ایک انوکھا امتزاج پیش کرتا ہے۔ ' ہر معاشرے میں شائیستہ اور مہذب آداب' مختلف ہوتے ہیں۔ بات چیت کے مقامی طور طریقے سیکھنا ایسے تارکین وطن کے لیے بہت ضروری ہیں جو آسٹریلیز کے ساتھ روز مرہ کی گفتگو میں مہارت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔


Key Points
  • کس بات کو شائستہ، مناسب، یا بدتمیزی سمجھا جائے اس حوالے سے بہت سے غیر تحریری اصول ہیں
  • آداب میں فرق تارکین وطن کے سماجی یا پیشہ ورانہ دائرے میں داخل ہونے کی کوشش میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
  • کچھ تارکین وطن تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں آسٹریلیا میں جارحانہ سمجھی جانے والی باتیں سیکھنے میں مشکل در پیش آئی ۔
 آداب کو عام طور پر اس روایتی ضابطہ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جس کے ذریعے، کسی خاص معاشرے، ثقافت، یا کسی مخصوص سماجی یا پیشہ ور حلقے کے اراکین کے درمیان شائستہ برتاؤ اور اچھے اخلاق سمجھا جائے ۔

امینڈا کنگ آسٹریلین فنشنگ سکول کی بانی ہیں۔ وہ تمام ثقافتی پس منظر کے لوگوں کو سکھاتی ہیں کہ آسٹریلیا کے تناظر میں آداب اور قابل قبول طرز عمل کے اصول کیا ہیں۔

"آداب رویے اور معاشرے کے مطابق متوقع اصولوں کے ارد گرد ہیں،" وہ بتاتی ہیں۔

اچھے آداب کا ہونا خالصتاً کچھ بہت ہی آسان اصولوں پر منحصر ہے، اور یہ ہماری ظاہری شکل اور عمومی رویہ کے ارد گرد ہو سکتا ہے، جس سے اخلاق کی عکاسی ہوتی ہے ۔"

تاہم، محترمہ کنگ کہتی ہیں، آسٹریلیا میں آداب آپ کے مخصوص ماحول اور حالات پر منحصر ہیں۔

"ہم آبادیاتی اور ثقافتی طور پر دنیا بھر کی ہر چیز کا تھوڑا سا حصہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا، ہمارے پاس ایک بنیاد کے طور پر انگریزی ہے، لیکن ثقافتی طور پر ہم یورپی اور امریکی طرز کو بھی شامل کرتے ہیں، اس لئے ہم اپنی الگ پہچان رکھتے ہوئے دنیا کا حصہ بھی ہیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

محترمہ کنگ کا خیال ہے کہ تارکین وطن کے لیے کچھ پیشہ ورانہ یا سماجی حلقوں میں شامل ہوتے ہوئے ، بعض اوقات غیر تحریری پروٹوکول کے باوجود، مروجہ قوانین سیکھنا اور اس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ آداب میں بنیادی طور پر ظاہری شکل، برتاؤ، کھانے کے آداب اور بات چیت شامل ہیں۔ کی ،الف بے



گفتگو ہی اصل کلید ہے ، خاص کر اگر آپ کی پہلی مادری (پہلی ) زبان انگریزی نہیں ہے تو ایک اچھی گفگو کرنے والا بننا مشکل ہو سکتا ہے
امینڈا کنگ، آداب کی ماہر اور انسٹرکٹر

سب سے غلط طریقہ :ناگوار ذاتی سوالات

 آسٹریلیا میں 'اچھے آداب' سمجھے جانے والے سب سے اہم غیر تحریری اصولوں میں سے ایک، ایسے سوالات پوچھنے سے گریز کرنا شامل ہے جو نامناسب یا ممنوع سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ ان سے دوسروں کو تکلیف ہو سکتی ہے۔

ان سوالات میں دیگر موضوعات کے علاوہ ازدواجی حیثیت، مالیات، مذہب اور سیاست سے متعلق باتیں پوچھنا شامل ہے۔

"لوگ مشترکہ دلچسپی تلاش کرنے کے لیےدوسروں سے بات کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ جڑ سکیں۔ لہذا، ہمیں ایک بہت ہی ذاتی سوال کے بجائے جو کافی جارحانہ ہو سکتا ہے دوسرے موضوعات کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے " محترمہ کنگ بتاتی ہیں۔

تاہم، ہر ثقافت کا ایک مختلف معیار ہے جہاں کچھ باتیں یا رویے مناسب سمجھے جاتے ہیں کچھ طویل مدتی تارکین وطن تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات مشکل سے سیکھی ہے کہ وہ سوالات جو ثقافتی طور پر ان کے آبائی ممالک یا ثقافتی سیاق و سباق میں پوچھنے کے قابل تھے، آسٹریلیا میں جارحانہ تصور کیے جاتے تھے۔

وینماس یو کا تعلق اصل میں ہانگ کانگ سے ہے اور وہ دس سال سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین میں لوگوں کا دوسروں کی جسامت پر تبصرہ کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

ہمارے والدین یا دادا دادی ہمیں کہتے ہیں، 'ٹھیک ہے، آپ کو زیادہ کھانا چاہیے'، یا 'آپ کو کم کھانا چاہیے کیونکہ آپ موٹے نظر آتے ہیں، یا آپ دبلے نظر آتے ہیں۔' لیکن جب میں آسٹریلیا پہنچا، تو میں نے محسوس کیا کہ شاید کچھ لوگ اس کوبہت ذاتی یا جارحانہ سمجھ سکتے ہیں۔ ، لہذا واقعی آپ کو ان کی جسمانی حالت یا یہاں تک کہ وہ کتنا کھاتے ہیں اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہئے ۔ "
Settlement Guide: a diverse group of people sharing a meal looking disconnected
Knowing the rules of etiquette can help avoid feeling awkward at gatherings. Credit: Getty Images/CatLane
سارہ کا تعلق مراکش سے ہے اوروہ 15 سال سے آسٹریلیا میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دیگر ممنوع سوالات، جیسے کہ ذاتی مالیات کے بارے میں پوچھ گچھ، کچھ عرب ثقافتوں میں معمولی بات ہے ۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ بات بھی (عرب ثقافت کے کچھ حصوں میں ) عام سمجھی جاتی ہے کہ کسی کی ازدواجی حیثیت کیا ہے ، اس کے بچے ہیں یا نہیں اور کیوں نہیں ہیں ۔

"اگر ایک جوڑے کی شادی کو 9 ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے اور بچہ نہیں ہے تو لوگ پوچھتے ہیں ... 'کیوں؟' 'کیا کوئی مسئلہ ہے؟' ... اور مجھے لگتا ہے کہ یہاں(آسٹریلیا میں ) یہ بہت نامناسب ہے،" سارہ نے ہنستے ہوئے بتایا۔

حتیٰ کہ وہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ تمہارا ڈاکٹر کون ہے، یا تمہیں اپنا ڈاکٹر بدلنا چاہیے!

نوکری کی تلاش کرتے ہوئے آداب کی اہمیت


 
آداب کےبنا کہے ہوئے اصولوں کو نہ جاننا بھی کام کی جگہ پر، یا ملازمت کی تلاش میں تارکین وطن کے لیے رکاوٹیں پیش کر سکتا ہے۔

فابیولا کیمبل 18 سال سے آسٹریلیا میں ہیں۔ جبکہ ان کا اصل تعلق وینزویلا سے ہے، اس نے 2019 میں پروفیشنل مائیگرنٹ ویمن کی بنیاد رکھی۔

تنظیم کا مقصد خواتین کے لیےامیگریشن اور پیشہ ورانہ ملازمت کے درمیان فرق کو ختم کرنا تھا، اس سمجھ کے ساتھ کہ بہت سی پیشہ ور خواتین بے روزگار یا کم روزگار ہیں۔ ان خواتین میں مہارت یا تجربے کی کمی نہیں تھی،بلکہ ان کے پاس اس بات کی سمجھ نہیں تھی کہ آسٹریلیا میں بھرتی کا عمل کیسے کام کرتا ہے۔
 Settlement Guide: A group of three people sitting at a library table
نیٹ ورکنگ کے آداب بھی اہمیت کے حامل ہیں Credit: Getty Images/Kosamtu
محترمہ کیمبل کا نیٹ ورک ، ایک مشاورتی پروگرام کے ذریعے،ان غیر ملکی خواتین کو بااختیار بناتا ہے جو آسٹریلوی جاب مارکیٹ میں داخل ہونے کی خواہاں ہیں

وہ اپنے ہنر کو بیچنا سیکھتے ہیں، اپنی قدر کی شناخت کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ایک بیانیہ بھی تیار کرتے ہیں جو آسٹریلیا میں ملازمتوں کے ملنے کے طریقے سے مطابقت رکھتا ہو۔

یہ بھی آداب کی وسیع زمرے میں آتا ہے۔ محترمہ کیمبل کا خیال ہے کہ ثقافتی اختلافات تارک وطن پیشہ ور افراد کے لیے ایک خطرہ بن سکتے ہیں، کیونکہ نیٹ ورکنگ اور آداب اچھے تعلقات استوار کرنے کے بارے میں ہیں۔
کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آپ مشکل سے سیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ، ہو سکتا ہے کہ اپنی ثقافت کی وجہ سے، وہبات چیت میں پہل کرتے ہوئے نظر آنا چاہتے ہیں ، لیکن وہ تھوڑا سا غالب ہوتے محسوس ہو سکتے ہیں۔
فیبیولا کیمبل، مہاجر پیشہ ور خواتین کی بانی
 محترمہ کیمبل بتاتی ہیں کہ نیٹ ورکنگ کے دوران ایک اچھی حکمت عملی یہ ہے کہ دوسرے لوگوں پر غالب آنے کی کوشش نہ کی جائے، اورپشہ ورانہ طور پر ان سے رابطہ کرنے سے قبل احترام کے ساتھ ان کی رضامندی طلب کی جائے۔ نیز، جب آپ ملیں تو انہیں پہلے بولنے دیں۔

انہیں اپنی کہانی پہلے سنانے کا موقع دیں اس طرح آپ کو ان سیکھنے کا موقع ملے گا ۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں، 'آپ کو اپنی پہلی نوکری کیسے ملی؟ آپ اس صنعت میں کام کرنے کے لیے کیسے آئے؟’ دوسرے شخص کے لیے گفتگو کو پرلطف بنانے کی کوشش کریں، لیکن اس سے آپ بھی سیکھ سکتے ہیں۔

مسز کیمبل کی سرفہرست تجاویز میں سے جارح بننے سے بچنے کے لیے 'براہ کرم' اور 'شکریہ' جیسے شائستہ جملے باقاعدگی سے استعمال کرنا ہے۔ تاہم، ان الفاظ کو بار بار مت کہیں ، کیونکہ یہ بہت زیادہ، یا 'اوور دی ٹاپ' ہو سکتا ہے۔
Settlement Guide: A man and a women experiencing miscommunication
کچھ ثقافتوں میں مسلسل اظہار تشکر بار بار دہرایا جاتا ہے ، Credit: Getty Images/RRice1981
 وہ بتاتی ہیں کہ میں لوگوں کو بتاتی ہوں انگریزی میری پہلی (مادری) زبان نہیں ہے اگرچہ میں نیک نیتی سے بات کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن ممکن ہے آپ کو ایسا محسوس نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپ فیڈ بیک مانگ کر انگریزی زبان کی باریکیوں اور آسٹریلیا میں گفتگو کے ترجیحی انداز سیکھ سکتے ہیں۔
میں لوگوں سے پوچھتی ہوں کہ کیا وہ غیر آرام دہ یا جارحانہ طرز کا شکار ہوتے محسوس کر رہے ہیں وہ اس بارے میں مجھے رائے دیں ،اس طرح میں اپنی بات چیت کی اہلیت بڑھا سکتی ہوں اور ساتھ ہی اپنامطلوبہ پیغام بھی پہنچا سکتی ہوں ۔
آداب کی انسٹرکٹر امینڈا کنگ مشورہ دیتی ہیں کہ سماجی یا پیشہ ورانہ موقع پر وقت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے ۔ اگر آپ کو کسی اجتماع یا میٹنگ کے لیے دیر ہو رہی ہے ، تو اپنے میزبان کو کم از کم 15-20 منٹ پہلے بتائیں۔ اس کے علاوہ، اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ دوسروں کے سامنے واضح اور اعتماد کے ساتھ اپنا تعارف کراتے ہیں، اور آنکھوں سے رابطہ برقرار رکھتے ہیں۔

محترمہ کیمبل یہ بھی چاہتی ہیں کہ تارکین وطن پر سکون رہیں ، کیونکہ بہت سے لوگوں کو مختلف ثقافتی اور لسانی پس منظر کے لوگوں سے بات چیت کا تجربہ ہے

آسٹریلیا میں زیادہ تر لوگوں کا تارک وطن افراد سے رابطہ ہوتا ہے اور خاص طور پروہ تارکین وطن کے ساتھ انگریزی کو دوسری زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے کہنے کا وہ مطلب نہیں ہوتا لیکن (انگریزی )زبان کی مہارت نہ ہونے کی وجہ سے وہ چیزوں کو صحیح طریقے سے بیان نہیں کر پا رہے "، محترمہ کیمبل نے نتیجہ اخذ کیا۔


شئیر