آسٹریلوی پارلیمان میں ریفرنڈم پر گرما گرم بحث : "یہ وزیر اعظم کی ناکامی ہے"

News

Federal Opposition Leader Anthony Albanese delivers his Budget Reply Speech in the House of Representatives of Parliament House in Canberra, Thursday, 31 March, Source: AAP

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

آسٹریلیا میں یہاں کے قدیم باشندوں سے متعلق ریفرنڈم کی ناکامی پر وزیر اعظم انتھونی البنیزی ہر طرف سے کڑی تنقید کی زد میں ہیں۔


سرمائی تعطیلات کے بعد پارلیمان کی پہلی بیٹھک میں حزب اختلاف کے ارکان نے آسٹریلوی پرایم منسٹر کو آڑے ہاتھوں لیا تاہم مقامی انڈیجینس باشندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ان کے گلے شکوے اور مشکلات دور کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔ اپنے خطاب میں وزیر اعظم البنیزی نے پارلیمان کو بتایا کہ "انڈجنس وائس ٹو پارلیمنٹ " کے لیے عوامی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد پر انہیں بالکل بھی افسوس نہیں۔

ان کی مخالف، حزب اختلاف کی لبرل پارٹی سے وابستہ سوزن لی نے البتہ اسے وقت کے ضیاع سے تعبیر کیا۔
"یہ وزیر اعظم کی ناکامی ہے۔ مجھے نتیجے سے کوئی خوشی نہیں ملی۔ لیکن یہ ایک ایسا ریفرنڈم ہے جس کی ہمیں ضرورت نہیں تھی۔"
سوزن لی

عوامی رائے جاننے کا یہ خاصا اہم ریفرنڈم ہفتہ 14 اکتوبر کو منعقد کیا گیا، جس میں آسٹریلوی عوام کی واضح اکثریت نے "نہیں" کی رائے دی۔ اس میں رائے دہندگان سے محض ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ:

ایک مجوزہ قانون: آسٹریلیا کے انڈجینس باشندوں کو تسلیم کرنے کے لیے آئین کو ترمیم کرکے ایبوریجنل اور ٹورس سٹریٹ آئی لینڈر وائس (صدا کی شوریٰ) قائم کرنا۔ کیا آپ اس مجوزہ تبدیلی کو منظور کرتے ہیں؟ بنیادی طور پر آسٹریلوی شہریوں سے پوچھا گیا تھا کہ وہ یہاں کے قدیم باشندوں کے لیے پارلیمان میں ایک نئی مشاورتی شوریٰ کے حق میں ہیں یا نہیں۔ اس مجوزہ آئینی شوریٰ کو Voice یعنی "صدا" کا نام دیا گیا تھا جو اہم ملکی معاملات پر یہاں کے اصلی انڈجینس Indigenous اور Torres Islanders باشندوں کے نکتہ نظر کے مطابق مشورہ دینے کا کام کرتی۔

اس ریفرنڈم کی ناکامی کے بعد حزب اختلاف کو امید ہے کہ وزیر اعظم البنیزی کی لیبر پارٹی کو خاصا سیاسی نقصان پہنچے گا۔ واضح رہے کہ ملکی سطح پر تو یہ ریفرنڈم ناکام ہوا ہی، ہر انفرادی ریاست کی سطح پر بھی اسے ناکامی ہے کیونکہ دارالحکومت کینبرہ کے وفاقی خطے کے علاوہ تمام ہی ریاستوں نے اس کی مخالفت میں رائے دی۔

Three-way split image. On the left are people holding placards reading Vote Yes!, in the centre is a hand holding a voting form above a ballot box and on the right are people holding placards reading Vote No.
Source: SBS

نیشنلز لیڈر ڈیوڈ لٹل پراؤڈ آواز کی تجویز پر حکومت اور وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنانے والے اتحادی ممبران پارلیمنٹ میں شامل ہیں۔
انہوں نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا کہ وزیر اعظم نے اپنے گزشتہ 16 ماہ کے اقتدار میں محض مہنگائی اور لوگوں کے بیچ دوریاں بڑھانے کا کام کیا ہے۔ "اب یہ بات اہم ہے کہ وہ آسٹریلیوی لوگوں کے لیے اہم معاملات پر دھیان دیں، خاص کر مہنگائی کے دباو پر جو انہوں نے آسٹریلوی لوگوں پر ڈال رکھا ہے۔"

ریفرنڈم کی ناکامی کے بعد اب بحث و مباحثے کا رخ اس طرف ہے کہ مجوزہ شوریٰ کی غیر موجودگی میں اب انڈیجینس باشندوں کی مشکلات کو کیسے دور کیا جائے۔

قدیم باشنوں کے ساتھ مفاہمت کا عزم

پارلیمان کی ایک آزاد رکن جیکی لیمبی نے اس مدعے پر بات کرتے ہوے 9 نیوز کو بتایا کہ یہاں کے قدیم انڈیجینس باشندے سالہاں سال نظر ہوتے چلے آرہے ہیں۔
"بنیادی طور پر لیبر پارٹی نے انڈیجینئس باشندوں کو محض لائف سپورٹ پر رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے دو سال سے کچھ نہیں کیا اور ان کے پاس کوئی دوسرا منصوبہ بھی نہیں ہے۔ اور اب وہ مہنگائی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ لیکن آپ پچھلے دو سالوں سے اپنی پیدا کردہ ناکامی کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔ آپ نے لوگوں کے حالات مزید بدتر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے، اور ہمیں رواں ہفتہ اسی بر بحث کرنی چاہیے۔"
جیکی لیمبی

لبرل پارٹی کی ایم پی جولین لیزر نے اپنی جماعت کی پالیسی کے برعکس "انڈجینئس وائس ٹو پارلیمنٹ” کی حمایت کی اور پارلیمان کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دیا،انہوں نے سیاست دانوں پر زور دیا کہ وہ مقامی باشندوں سے مفاہمتی عمل کے لیے عزم کا اظہار کریں۔

نائب وزیر اعظم رچرڈ مارلس نے کہا ہے کہ حکومت بھی یہی چاہتی ہے ۔

ہم ریفرنڈم کے بعد دوریوں کو ختم کرنے اور مفاہمت پر عمل کرنے کا ایک بڑھتا ہوا عزم” کرسکتے ہیں۔ اور حقیقت یہی ہے کہ ہمیں اب پورے ملک متحد ہو کرآگے بڑھنے کی ضرورت ہے”۔

انڈجنس امور کی وزیر لنڈا برنی کا کہنا تھا کہ وہ اس مقصد کے لیے مزید اقدامات کا ارادہ رکھتی ہیں۔
Northern Territory Senator Nova Peris with a Aboriginal woman during an event to mark the 30th anniversary of the hand back of Uluru at Mutitjulu community.
Northern Territory Senator Nova Peris with a Aboriginal woman during an event to mark the 30th anniversary of the hand back of Uluru at Mutitjulu community. Source: AAP

اس کے باوجود حکومت کے مخالف رکن پارلیمان ڈیوڈ لٹل پراؤڈ کا کہنا تھا کہ مفاہمت کے حوالے سے حالات اب بھی خاصے بہتر ہیں۔ "ہم پہلے سے ہی مفاہمت میں ہیں۔ میرے خیال میں جہاں مشکلات ہیں وہاں مالی مدد کی فراخدلی اور سخاوت رہی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ آسٹریلیائیوں کو زیاد ناامید ہونے کی ضرورت نہیں۔"

ان کے برعکس، حزب اختلاف ہی کی لبرل جماعت کے ارکان نے زیادہ مثبت تاثرات کا اظہار نہیں کیا۔ اپوزیشن لیڈر پیٹر ڈٹن نے مطالبہ کیا کہ قدیم باشندوں میں بچوں کے جنسی استحصال کے معاملات کی تحقیقات کی جائے اور انڈجنس باشنوں سے متعلق پروگراموں پر اخراجات کا حساب کتاب کیا جائے۔ "ہم جیسنٹا اور کیرن کے ساتھ مل کر ایک عمل ترتیب دے رہے ہیں جیسا کہ میں نے ہفتے کی رات کو اعلان کیا تھا۔ اور یہ ہمارے لیے ایک اہم عمل ہے کیونکہ ہمیں مالیاتی غبن کو روکنا ہے۔”"

اپوزیشن لیڈر نے البتہ یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ممکنہ طور پر اقتدار میں آنے کے بعد قدیم انڈجنس باشندوں کے حقوق کے حوالے سے ایک نئے ریفرنڈم کے اپنے وعدے پر قائم ہیں یا نہیں۔ "ہماری تمام پالیسیاں - ظاہر ہے جیسا کہ میں نے ہفتہ کی رات کو کہا تھا - کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا... اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ واضح ہے کہ آسٹریلوی عوام شاید کچھ عرصے کے لیے اب ریفرنڈم کے سلسلے کو ختم کرچکے ہیں۔

ایس بی ایس نیوز کے لیے ڈیبورا گرورک کی یہ رپورٹ آپ نے شادی خان سیف کی زبانی سنی۔)

شئیر