Key Points
- آسٹریلیا کے عائلی قانون کے تحت بچے کے مفادات سب سے اہم ہیں۔
- زیادہ تر والدین غیر رسمی انداز میں بچوں کےمعاملات کے حل تک پہنچ جاتے ہیں۔
- جب والدین راضی نہ ہوں تو وہ ثالثی میں شرکت کر سکتے ہیں۔
- فیملی کورٹ ہمیشہ آخری آپشن ہوتا ہے، لیکن اس عمل میں آپ کی رہنمائی کے لیے وسائل دستیاب ہیں۔
فیملی لاء ایکٹ شادی شدہ، ڈی فیکٹو، یا ہم جنس والدین کے ساتھ ساتھ دادا دادی جیسے دیکھ بھال کرنے والوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔
یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بچوں کو دونوں والدین کے ساتھ بامعنی تعلقات برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے، جبکہ اس سلسلے میں خاندان ، جنس یا والدین کے کردار کے بارے میں کوئی مفروضہ قائم نہیں کیا جاتا ۔
اس کا مطلب ہے کہ علیحدگی کے بعد، والدین میں سے کوئی بھی خود بخود کسی بچے کی دیکھ بھال کرنے یا دوسرے والد یاوالدہ کے لیے فیصلے کرنے کا حقدار نہیں ہوتا ہے۔
برناڈٹی گرینڈیٹی وکٹوریہ لیگل ایڈ میں ایکٹنگ پروگرام مینیجر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فیملی لا ایکٹ کے تحت والدین کی مساوی ذمہ داری کا تصور ہے۔
ابتدا سےوالدین کو مساوی طور پر ذمہ داری دینا – جس کا مقصد بچوں سے متعلق طویل مدتی فیصلے کرنے کے لئے والدین کو مساوی اور مشترکہ ذمہ داری فراہم کرنا ہے –Bernadette Grandinetti, Acting Program Manager, Victoria Legal Aid
خاندانی تشدد جیسے معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے صرف عدالتیں ہی والدین میں سے کسی ایک یا دونوں والدین کو بچوں سے ملنے سے روک سکتی ہیں
مساوی مشترکہ ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچے کو دونوں والدین کے ساتھ برابر وقت گزارنا چاہیے۔ والدین مل کر اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ کون سا انتظام زیادہ مناسب ہے۔
دونوں والدین پر لازم ہے کہ وہ بچوں کی مالی مدد کریں قطع نظر اس کے کہ وہ کس کے ساتھ رہتے ہیں ۔

Equal shared parental responsibility means both parents must support the child financially. Credit: PeopleImages/Getty Images
والدین کی ذمہ داری کے منصوبے
بہت سے والدین جو الگ ہوجاتے ہیں وہ اپنے درمیان غیر رسمی، زبانی معاملات طے کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
والدین ایک معاہدہ لکھنے اور اس پر دستخط کرنے کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں جو 'والدین کے لئے ذمہ داری کا منصوبہ' بن جاتا ہے۔
والدین کی ذمہ داری کے منصوبے قانونی طور پر پابند نہیں ہیں۔ ان کا مقصد علیحدگی کے بعد تنازعات کو کم کرنا ہے، خسوصا اس وقت جب والدین کے درمیان بات چیت بند ہو یا نہ ہونے کے برابر ہو ۔ منصوبوں میں جاری مالی انتظامات، اور رہنے کے انتظامات کے بارے میں ایک معاہدہ شامل ہو سکتا ہے۔
"مثال کے طور پر، بچے ہفتے کے کن دنوں میں والدہ کے ساتھ اور کون سے دنوں میں والد کے ساتھ رہیں گے،" شیریں فغانی کے مطابق جو آسٹریلین کیپٹل ٹریٹری میں ،ایک سینئر وکیل برائے خواتین کی قانونی خدمت ،کام کرتی ہیں
"آپ کے پاس اس بارے میں کچھ رہنما خطوط ہوسکتے ہیں کہ آپ بطور والدین ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کیسے کریں گے۔"
والدین کی ذمہ داری بانٹنے کے منصوبے لچکدار ہوتے ہیں اور آپ کے بچے کی ضروریات میں تبدیلی کے ساتھ ان میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔
اگر آپ کسی معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں اور اسے قانونی طور پر پابند بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو آپ فیڈرل سرکٹ اینڈ فیملی کورٹ آف آسٹریلیا میں آن لائن درخواست دے سکتے ہیں جسے والدین کی رضامندی کا حکم کہا جاتا ہے۔

Little girl feeling sad while her parents are arguing in the background. Credit: skynesher/Getty Images
خاندانی تنازعات کا حل
جب والدین مشترکہ طور پر کسی معاہدے تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوتے تو ثالثی، یا خاندانی تنازعات کا حل، عام طور پر اگلا مرحلہ ہوتا ہے۔
ہر ریاست اور علاقے میں لیگل ایڈ کمیشن مالی امداد کے اہل لوگوں کے لیے قانونی طور پر معاون ثالثی پیش کرتے ہیں۔ کمیونٹی پر مبنی اور نجی ثالثی کی خدمات بھی دستیاب ہیں۔
فیملی کورٹ خاندانی تنازعات کے حل کے وسائل پیش کرتی ہے تاکہ والدین کو معاہدے تک پہنچنے اور عدالت سے بچنے میں مدد ملے۔ آپ قانونی امداد کی خدمات اور وسائل جیسے خاندانی تعلقات آن لائن بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
زیادہ تر علیحدگی اختیار کرنے والے والدین عدالت میں جائے بغیر والدین کی ذمہ داری بانٹنے کے معاملات طے کرتے ہیں
آسٹریلیا کی فیڈرل سرکٹ اینڈ فیملی کورٹ کی سینئر جوڈیشل رجسٹرار این میری رائس کے مطابق، "والدین کے درمیان طے پانے والے معاہدے تنازعات کو کم کرنے اور بچوں کے لیے یقین پیدا کرنے کے لیے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔

L'aumento del costo della vita sta avendo ripercussioni su migliaia di famiglie in Australia. Source: Moment RF / LOUISE BEAUMONT/Getty Images
ایف ڈی آر پی کی فہرست ان کے مقامات اور فیس کے ساتھ فیملی ریلیشن شپ سینٹرز کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے، نجی ثالث بھی یہ خدمت پیش کرتے ہیں، لیکن ان کی فیس زیادہ ہو سکتی ہے ۔
خاندانی تنازعات کے حل میں شرکت کے لیے آپ کو وکیل کی ضرورت نہیں ہے۔ ایف ڈی آر پیز س بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مذاکرات محفوظ ہیں، اور وہ باہمی مذاکرات سے پہلے آپ کے ساتھ نجی طور پر کسی بھی خدشے یا خطرے سے متعلق پر بات کریں گے - بشمول گھریلو اور خاندانی تشدد۔ تاہم آپ مترجم کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کو دوسرے والدین کی طرف سے ایف ڈی آر میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوتا ہے، تو اس پر غور سے غور کریں اور اگر آپ کے سوالات ہیں تو قانونی مشورہ لیں۔
اگر آپ شرکت نہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو، آپ کےجواب یا ردعمل کے بغیر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
فیملی کورٹ
رجسٹرار رائس بتاتی ہیں کہ اگر آپ عدالت جاتے ہیں کیونکہ آپ کسی معاہدے تک نہیں پہنچ پائے ہیں، تب بھی جج کے سامنے
مقدمے کے ختم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔
عدالت آپ کو ایسے معاہدے پر محفوظ طریقے سے بات چیت کرنے کے طریقے تلاش کرنے میں مدد کرے گی جو آپ اور آپ کے بچوں کے لیے کارآمد ہو۔Senior Judicial Registrar Anne-Marie Rice, Federal Circuit and Family Court of Australia.
فیڈرل سرکٹ اینڈ فیملی کورٹ آف آسٹریلیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ والدین کو ممکنہ حد تک مؤثر طریقے سے تنازعات کو حل کرنے میں مدد کرے۔ اس کے باوجود عدالت کبھی بھی ترجیحی آپشن نہیں ہے۔
"میرے خیال میں ہر وہ شخص جو خاندانی قانون کے نظام میں کام کرتا ہے کہے گا کہ عدالت آخری حربے کی جگہ ہے... جو کوئی بھی بچے کے بارے میں باضابطہ حکم کے لیے عدالت میں درخواست دینا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ - سوائے فوری اور زیادہ خطرے کے معاملات کے - پہلے دوسرے والدین کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کریں،" رجسٹرار رائس کہتی ہیں۔
۔ " اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں رجسٹرڈ ایف ڈی آر پی کے ساتھ ثالثی میں شرکت کرنی چاہیے، اور خاندان کو اس بات کی تصدیق کے لیے ایک سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہیے کہ کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔"
عدالتی حکم ایک رسمی، تحریری دستاویز ہے جو یہ بتاتی ہے کہ والدین کو بچوں یا مالی معاملات کے سلسلے میں کیا کرنا چاہیے۔ والدین کے درمیان رضامندی سے یا سماعت کے بعد رجسٹرار یا جج کے ذریعے احکامات صادر کیے جا سکتے ہیں۔ والدین اس حکم کے قانونی طور پر پابند ہیں اور بچے کے 18 سال کے ہونے تک یہ احکام نافذ العمل ہیں۔
عدالت احکامات کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے اور حکم کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
عدالت کی ویب سائٹ پر ان دستاویزات کے کی تفصیل موجود ہے جو آغاز میں آپ کی معاونت کر سکتے ہیں

When planning to move overseas or interstate with your child, consent from the other parent is required unless you are seeking a court order. Credit: MoMo Productions/Getty Images
اپنے بچے کے ساتھ نقل مکانی کرنا
اپنے بچے کے ساتھ بیرون ملک یا بین ریاستی طور پر منتقل ہونے کے لیے دوسرے والد یا والدہ کی رضامندی درکار ہوتی ہے جب تک کہ آپ کے پاس عدالتی حکم نہ ہو۔
شیریں فغانی زور دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہ وہ وقت ہے جب آپ کو کسی وکیل سے بات کرنی چاہیے۔ "عدالت حفاظتی خدشات جیسی چیزوں پر غور کرے گی، چاہے اس نقل مکانی کا مطلب یہ ہو کہ وہ خاندان سے قریب ہوں گے اور انہیں اضافہ مالی تحفظات حاصل ہوں گے۔"
قانونی مشورہ
برناڈیٹ گرانڈیٹی کا کہنا ہے کہ یہ نظام کافی مشکل ہو سکتا ہے لیکن اس نظام کے تحت معاملات کے حل میں آپ کی مدد کے لیے مدد دستیاب ہے۔
"اگر آپ علیحدگی اختیار کر چکے ہیں اور آپ کو یقین نہیں ہے کہ کیا کرنا ہے یا آپ کو والدین کی ذمہ داری کے انتظامات سے اتفاق کرنے کے لیے دباؤ محسوس ہوتا ہے، تو آپ کو اتفاق کرنے سے پہلے قانونی مشورہ لینا چاہیے، خاص طور پر اگر آپ خاندانی تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔"