اعلیٰ تعلیم کے نظام میں بڑی تبدیلی ۔ دا آسٹریلیئن یونیورسیٹیز اکارڈ ہے کیا؟

Education Minister Jason Clare at the launch of the Universities Accord report (SBS).jpg

Education Minister Jason Clare at the launch of the Universities Accord report Source: SBS

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

اسے ایک ایسی تاریخی دستاویز کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو آسٹریلیا میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو زیادہ موثر اور تمام لوگوں کے لیے آسان اور سستا کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔ دا آسٹریلیئن یونیورسیٹیز اکارڈ کی تکمیل میں ایک برس کا عرصہ لگا تاہم اسے بنیاد بناکر زیادہ سے زیادہ داخلوں کو ممکن بنانے اور یونیورسٹیز میں مہارت اور تجربہ کے خلاء کو کم کرنے کے لیے کلیدی قرار دیا جارہا ہے۔


سڈنی کے جنوب مغربی نواحی علاقے فیئر فیلڈ کی نصف آبادی کی جائے پیدائش بیرون ممالک میں ہیں۔

یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے وزیر تعلیم جیسن کلیئر اور وزیر موسمیاتی تبدیلی کرس بووین کا تعلق ہے۔

اسی لیے زیادہ تعجب کی بات نہیں کہ وزیر جیسن کلیئر نے دا آسٹریلیئن یونیورسیٹیز اکارڈ کی متعبر اور اہم سند کی رونمائی کے لیے اسی مضافاتی علاقے کو چنا۔

اس سند کی تیاری میں ایک برس کا عرصہ لگا۔ اس اکارڈ کی تیاری کی ذمہ داری نبھانے والی کمیٹی کی سربراہ میری اوکین کے بقول اس رپورٹ کا مقصد نظام تعلیم کی از سر نو بہتری ہے۔

وزیر تعلیم جیسن کلیئر نے اس موقع پر امید ظاہر کی کہ اس پالیسی کی بدولت اب دور دراز مضافاتی علاقوں، کم آمدن والے گھرانوں اور انڈیجینس برادریوں کے زیادہ سے زیادہ لوگ یونیورسٹیز کا رخ کرسکیں گے۔

مجموعی طور پر اس سند میں نظام تعلیم کی اصلاح کے لیے 47 تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ اس میں سے ایک ہدف ملک کی مجموعی افرادی قوت کی شرح اعلیٰ تعلیم کو موجود 60 فی صد سے بڑھا کر سال 2050 تک 80 فیصد کرنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح اسٹوڈنٹس کے لیے مالیاتی معاونت کو آسان کرنا بھی تجاویز میں شامل ہے۔ اس ضمن میں HECS کے نظام کو متعارف کروانے کی بھی تجویز شامل ہے، جس کے تحت اسٹونڈس کو ملنے قرضے کو ان کی مجوزہ آئندہ آمدن کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دینا بھی شامل ہے۔

اس رپورٹ کو تیار کرنے والے ماہرین نے جامعات اور ویکیشنل ٹریننگ سنٹرز کے مابین بہتر رابطے پر بھی زور دیا۔

آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کی ڈپٹی وائس چانسلر میش ایسٹمین کے بقول یہ سب معاملات مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے خاصے اہم ہیں۔

مختلف صنعتوں سے وابستہ حلقوں نے بھی اس رپورٹ کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

دی آسٹریلیئن انڈسٹری گروپ سے وابسہ میگن للی کے بقول مستقبل میں مہارتوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ پالیسی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

ان تمام کے باوجود آسٹریلیا کی آٹھ بڑی اور اہم جامعات نے اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یونیورسٹی آف سڈنی کے وائس چانسلر مارک اسکاٹ اس پلان سے ان کی اس آمدن پر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے جو وہ انتھائی محنت سے بین الاقوامی طالب علموں کو راغب کرکے حاصل کرتے ہیں۔

ان آٹھ یونیورسٹیز نے ایک خاص کمیشن کے ذریعے اس پالیسی کے از سر نو جائزے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

نیشنل یونین آف اسٹوڈنٹس کا البتہ کہنا ہے کہ وہ اس پالیسی پر حکومت کے ساتھ مزید کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

حزب اختلاف نے بھی محتاط انداز میں پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو عملی طور پر بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔

حکام کے مطابق ایک ماہ کے اندر تمام تحفظات اور خدشات سے متعلق سوالات کا جواب دیا جائے گا۔

شئیر