وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے صحت کے ماہرین سے کہا ہے کہ وہ اس نئی سوجن پیدا کرنے والی بیماری کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔
لیکن اس بیماری کا کرونا وائرس سے کیا تعلق ہے اور کیا آسٹریلوی بچے اس سے متاثر ہوسکتے ہیں؟
اس بیماری کا نام پِمز۔ ٹی ایس ہے جو ایک نایاب بیماری کاواساکی سے منسلک ہے۔
یہ بیماری اکثر بچوں میں ہے پائی جاتی ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کووڈ۔۱۹ کا پھیلاو زیادہ ہے۔
امریکہ میں اس بیماری کے اب تک تہتر کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ برطانیہ اور اٹلی میں بھی یہ بیماری بچوں میں ریکارڈ کی گئی ہے۔
بدھ کو میڈیا سے گفتگو کے دوران آسٹریلوی نائب چیف میڈیکل آفیسر پال کیلی کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا میں اب تک نا تو کاواساکی بیماری کا کیس سامنے آیا ہے اور نا ہی پمز۔ ٹی ایس کا کیس سامنے آیا ہے۔

Chief Medical Officer Professor Paul Kelly. Source: AAP
اگرچہ کاواساکی بیماری نہایت نایاب ہے اور اس بیماری سے شفا بھی مل جاتی ہے، آسٹریلوی صحت کے ماہرین اس بیماری سے لڑنے کے لئے چوکنا ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ پِمز۔ ٹی ایس کا کرونا وائرس کے ساتھ رابطہ بھی ہے۔
کاواساکی اور پمز۔ٹی ایس بیماری کیا ہے؟
کاواساکی بیماری ایک نایاب بیماری ہے جو خاص طور پر بچوں میں پائی جاتی ہے۔ اس بیمار میں جسم میں خون کے خلیوں میں سُوجن پیدا ہوجاتی ہے۔
یہ بیماری سب سے پہلے انیس سو سڑسٹھ میں جاپان میں بچوں کے ڈاکٹروں میں پائی گئی تھی۔
پمز۔ٹی ایس بچوں کے جسم میں ایک یا ایک سے زیادہ انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے جو جسم کے مدافعتی نظام کے عمل میں ذیادتی پیدا کردیتے ہیں۔
بچوں اور انفیکشن سے منسلک بیماریوں کے ڈاکٹر اور مرڈاک چلڈرن انسٹیٹیون ان میلبورن کے پروفیسر ڈیوڈ برگنر کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں ہر سال کاواساکی کے تقریبا تین سو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

Prof David Burgner, a paediatric and infectious diseases doctor, says there is no definitive link between COVID-19 and Kawasaki disease. Source: Murdoch Children's Research Institute
"بچوں کے ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے ہم اکثر کاواساکی بیماری کی تشخیص کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ کہ یہ بیماری کیوں لگتی ہے۔"
" اس بیماری کے فوری علاج سے بچے جلدی صحتیاب ہوجاتے ہیں۔"
کاواساکی بیماری کی علامات میں خارش، خون بھری آنکھیں، تیز بخار، جوڑوں میں درد اور ہاتھوں اور پیروں میں سوجن شامل ہیں۔
پروفیسر برگنر کا کہنا ہے کہ اگرچہ کاواساکی اور پمز۔ٹی ایس بیماری میں مماثلت پائی جاتی ہے، ان بیماریوں میں فرق بھی ہے۔
پروفیسر ڈیوڈ برگنر کا کہنا ہے کہ کووڈ۔۱۹ اور کاواساکی بیماری میں اب تک کوئی مماثلت سامنے نہیں آئی ہے۔
"اس بیماری کے مریضوں کا بلڈ پریشر کم ہوا ہے اور ان کے دلوں کو دھڑکنے میں دشواری بھی ہوئی ہے۔
اس بیماری کی جو سب سے خطرناک علامات سامنے آئی ہیں ان میں مریضوں کے پیٹ میں شدید درد اور زہریلا شاک سنڑوم پایا گیا ہے۔"
"دونوں بیماریوں میں یقیناً مماثلت پائی جاتی ہے خاص طور پر کاواسکی کی یکساں علامات کی وجہ سے لیکن پمز۔ ٹی ایس میں بچے اکثر زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔"
کیا کاواسکی بیماری اور کروناوائرس کے ساتھ پمز۔ ٹی ایس میں کوئی یکسانیت ہے؟
پروفیسر برگنر کا کہنا ہے کہ اب تک ایس ایسا کوئی ڈیٹا یا اعداد سامنے نہیں آئے جن سے پتہ چل سکے کہ کووڈْ۔۱۹ کی وجہ سے کاواساکی کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
پروفیسر کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود ہم پر بھی نہیں کہہ سکتے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے کاواساکی بیماری نہیں ہورہی۔
"ایسے کئی انفیکشن ہے جن کی وجہ سے کاواساکی بیماری ہوجاتی ہے لیکن پمز۔ ٹی ایس میں وہی انفیکشن پائے گئے ہیں جو کرونا وائرس میں نظر آتے ہیں۔
"لیکن یہ بات ابھی قیاس آرائی ہے اس لئے کہ ابھی کیسز کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ سے ہم کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔"
"آسٹریلیا میں امریکہ اور برطانیہ کے مقابلے میں مشکل صورتحال نہیں ہے، اس لئے ہم امید کررہے ہیں کہ مستقبل میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا۔"
کیا آسٹریلیا میں بچوں کو خطرہ ہے؟
چیف میڈیکل آفیسر برینڈن مرفی کے مطابق کاواساکی یا پمز۔ٹی ایس بیماری سے والدین کو پریشان نہیں ہونا چاہیئے۔
پروفیسر مرفی کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا اب تک کرونا وائرس کی لڑائی میں کامیاب رہا ہے، اس لئے تعجب ہوگا اگر پمز۔ٹی ایس کے زیادہ کیس سامنے آئیں۔
"کچھ ممالک میں اس بیماری سے کئی افراد متاثر ہوئے ہیں، لیکن یہ بیماری اتنی نایاب ہے کہ لگتا نہیں کہ یہ آسٹریلیا میں ظاہر ہوگی۔
"ہم تیار ہیں اور صورتحال کی جانچ کررہے ہیں۔"
پروفیسر برگرنر کا کہنا ہے کہ والدین پر دوسرے ممالک کی خبروں کا اثر نہیں پڑنا چاہیئے۔
"حکومات کواب تک کاواسکی یا پمز۔ ٹی ایس بیماری کے بارے میں کوئی احکامات نہیں ملے۔
"والدین کو باخبر رہنا چاہیئے لیکن پریشان نہ ہوں۔
" آسٹریلیا میں بچے کو پمز۔ٹی ایس بیماری لگنے کے امکانات نہایت کم ہیں پر یہ ناممکن نہیں۔ ہمیں پوری صورتحال پر نظر رکھنی چاہیئے۔"
آسٹریلیا میں لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطے کے دوران کم ازکم ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھنا چاہیئے ۔ جمعہ ۱۵ مئی سے نیو ساؤتھ ویلز میں پانچ سے زائد افراد کی ملاقات پر پابندی ہے تاہم ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد اس شرط سے مثتثنٰی ہیں۔
اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کا کسی طرح وائرس سے رابطہ ہوا ہے تو فورا اپنے ڈاکٹرکو کال کریں تاہم ڈاکٹر کے پاس جانے سے گریز کریں یا پھر کرونا وائرس انفارمیشن ہاٹ لائن 080 180020 پر رابطہ کریں۔
اگر آپ کو طبی ایمرجنسی یا سانس لینے میں دشواری پیش آرہی ہے تو فری ہیلپ لائن 000 پر رابطہ کریں
ایس بی ایس آسٹریلیا کی متنوع آبادی کو کووڈ ۱۹ سے متعلق پیش رفت کی آگاہی دینے کے لئے پرعزم ہے ۔ یہ معلومات تریسٹھ زبانوں میں دستیاب ہے۔