Analysis

سستی ادویات بیرون ملک سے منگوانے کے فائدے اور نقصانات

آسٹریلیا میں ان دنوں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح نے ویسے تو سب کو پریشان کر رکھا ہے تاہم مسلسل اور قدرے مہنگی ادویات کا استعمال کرنے والے اس بابت خاصے پریشان ہیں، جن کے لیے بظاہر ایک حل بیرون ملک سے سستی ادویات کی درآمد ایک محتاط راہ حل ہوسکتا ہے۔

Several different medications are being held by two hands.

A survey published in 2022 of over 11,000 people found more than one in five went without a prescription medicine due to the cost. Source: AAP, AP / Rick Bowmer

پرسنل امپورٹیشن نامی اس عمل میں بھی خاص توجہ اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ پہلے سے ہی اس طریقے سے ایسے ادویات یہاں منگوا رہے ہیں جو آسٹریلیا کی مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ اس تمام عمل سے متعلق بہت اہم معلومات درج ذیل ہیں۔

مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباو نے ایسے افراد کو خاص طور پر پریشان کر رکھا ہے جو مسلسل ادویات کے استعمال پر مجبور ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ برس سات فیصد لوگوں نے اپنے جی پی سے ملنے یا ادویات خریدنے سے مہنگائی کی وجہ سے گریز کیا۔ یہ شرح سال 2022 میں محض ساڑھے تین فیصد تھی۔

سال 2022 میں نشر کئے گئے ایک سروے کے مطابق ہر 11 سو افراد میں سے پانچ افراد نے مہنگائی کی وجہ سے اپنی ادویات جاری رکھنے کا سلسلہ روک دیا تھا۔ بعض افراد جن کے پاس میڈیکیئر کارڈز اور رعایت کے کنسیشن کارڈز موجود ہیں ان کے لیے البتہ صورتحال خاصی مختلف اور بہتر ہے۔

اس کے باوجود بعض موارد میں ذاتی طور پر بیرون ملک سے ادویات کی درآمد سستی ثابت ہوسکتی ہیں۔ گزشتہ برس کے ایک سروے کے مطابق بارہ ماہ کے دوران ایک اعشاریہ آٹھ فیصد آسٹریلوی باشندوں نے بیرون ملک سے ادویات درآمد کی تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں آسٹریلین شہری بیرون ملک سے ادویات منگوا رہے ہیں۔ اس سروے کے مطابق پچاس فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ محض پیسے بچانے کے لیے بیرون ملک سے ادویات منگواتے ہیں۔

آسٹریلیا میں ادویات کی تنظیم کا ادارہ تھیراپیٹک گڈز ایڈمنسٹریشن آپ کو اجازت دیتا ہے کہ اپنے انفرادی یا خاندان کے کسی دوسرے فرد کے استعمال کے لیے تین ماہ تک کی ادویات درآمد کرسکیں۔ ایسے معاملات میں بسااوقات آپ بیرون ملک ویب سائٹس کے ذریعے ادویات کا آرڈز دیتے ہیں۔ اگر آپ کی ادویات کو آسٹریلیا میں استعمال کے لیے ڈاکٹر کے نسخے کی ضرورت ہے تو اس کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ آپ کسی بھی صورت میں ان ادویات کی خریدوفروخت میں ملوث نہیں ہوسکتے۔

بہت ساری ایسی قیمتی ادویات کی بیرون ملک سستے داموں خریداری آپ کو خاصا مناسب مالی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ یہ خاص طور پر ان ادویات میں زیادہ اہم ہے جو فارماسیوٹیکل بینیفٹکس اسکیم میں شامل نہیں۔ وہ افراد جن کے پاس میڈیکیئر کارڈ نہیں وہ بھی اس طریقے سے باآسانی سستی ادویات بیرون ملک سے خریدسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، ایک مخصوص قسم کے لیوکیمیا کے شکار لوگوں کے لیے ادویات PBS میں شامل نہیں۔

ان مریضوں کے لیے، آسٹریلیا میں ادویات دس گنا زیادہ مہنگی ہو سکتی ہیں۔ ذاتی درآمد آپ کو ان ادویات تک رسائی کی اجازت بھی دے سکتی ہے جو بیرون ملک دستیاب ہیں لیکن آسٹریلیا میں فروخت نہیں کی جاتی ہیں۔

تمام ادویات کی درآمد میں خطرات بھی ہوسکتی ہیں اور آن لائن فروخت ہونے والی دوائیں اضافی خطرات کا باعث بن سکتی ہیں۔

 TGA بیرون ملک فروخت ہونے والی ادویات کو ریگولیٹ نہیں کرتا، اس لیے ایسی ادویات کی حفاظت اور معیار غیر یقینی ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آسٹریلوی معیار کے مطابق تیار نہ ہوں۔ جبکہ اسی طرح کی ریگولیٹری ایجنسیاں دوسرے ممالک میں موجود ہیں، جب بیرون ملک ویب سائٹس سے ادویات کا آرڈر دیتے ہیں، تو یہ طے کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ آیا وہ وہاں کے معیار کے مطابق ہیں یا نہیں۔ غیر تصدیق شدہ یا غیر ملکی ویب سائٹس کے ذریعے خریدی گئی مصنوعات میں نامعلوم اجزاء ہوسکتے ہیں، ان میں مواد شامل ہوسکتا ہے جو لیبل پر دی گئی خوراک سے مختلف ہوتی ہے، یا اس میں فعال اجزاء کی مکمل کمی ہوتی ہے۔

بعض ادویات کو کبھی بھی آسٹریلیا میں درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور دیگر صرف ایک طبی پیشہ ور شخص ہی اسے درآمد کر سکتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کوئی ممنوعہ دوا درآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آسٹریلوی بارڈر فورس اسے ضبط کر سکتی ہے۔ نہ صرف آپ اپنی دوائی کھو دیں گے، بلکہ آپ کو جرمانہ یا جیل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


شئیر
تاریخِ اشاعت 19/02/2024 6:14pm بجے
تخلیق کار Jacinta L. Johnson, Kirsten Staff
پیش کار Shadi Khan Saif
ذریعہ: The Conversation