فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا نے آسٹریلیا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والی افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کو تسلیم کرنے کے مطالبات کی مزاحمت کی ہے، لہٰذا افغان ٹیم عالمی مقابلے صرف باہر سے دیکھنے پر مجبور ہے
افغان کھلاڑی اب بھی اپنے ملک کی سرخ کٹ پہنتے ہیں، لیکن اب اس پر میلبورن وکٹری کا نشان ہے، یہ کلب کو ان کے گھر سے ہزاروں میل کی دوری پر ہے۔
ایس بی ایس کو دیئے گئے ایک بیان میں، فیفا نے کہا کہ اسے کسی بھی ٹیم کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا حق نہیں ہے جب تک کہ اسے متعلقہ ممبر ایسوسی ایشن پہلے تسلیم نہ کرے۔
ٹیم کی کپتان فاطمہ کا کہنا ہے کہ ان کے کھلاڑی اب بھی اپنے کھیل کے شوق کو مہمیز کرنے میں مشغول ہیں۔
"میرے خیال میں یہ ہمارے لیے دوسرا موقع ہے۔ یہ صرف(کسی) ایک وجہ سے اہم نہیں ہے، اس کے اہم ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں، جو خاندان کے بارے میں ہے، جیسا کہ ہمارا اپناخاندان نہیں ہے، ہمارے پاس ( یہ ایک ) دوسرا خاندان ہے، فٹ بال کی وجہ سے۔ جس کی وجہ سے ہم ایک خاندان بن گئے ہیں اور ایک ساتھ کھیل رہے ہیں۔"
سابق کپتان خالدہ پوپل کا کہنا ہے کہ تقریباً دو سال بعد بھی کابل ایئرپورٹ سے ملک چھوڑنے کا دکھ تازہ ہے۔
انہوں نے بہت کچھ کھویا ہے۔ اگست میں دو سال ہو جائیں گے۔ دو سال بعد وہ اب بھی خواب میں ڈر جاتے ہیں ،وہ ابھی تک صدمے سے دوچار ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ کچھ کھلاڑی شور اور آوازوں سے ڈرتے ہیں۔
"لیکن وہ مہاجرین کے طور پر، افغانستان کی خواتین کے طور پر معاشرے میں مثبت طور پر حصہ لینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ اور اس معاملے میں انہوں نے کوئی وقفہ یا تعطل نہیں کیا ہے۔
ٹیم اگست 2021 میں اس پرواز کے ذریعے اپنے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئی جو آسٹریلیا سے لوگوں کے انخلا کے لئے پہنچی تھی تاہم ان کے کچھ رشتہ دار وہیں رہ گئے
طالبان نے سخت قوانین نافذ کرنا شروع کر دیے جس نے خواتین کے حقوق کو مزید محدود کر دیا، جبکہ ٹیم کی کپتان فاطمہ دور سے یہ سب دیکھتی رہیں۔
یہ بہت مشکل ہے، جیسا کہ کیا آپ ایک دائرے میں پھنس کر باہر نہ جانے کا تصور کر سکتے ہیں؟ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ آپ کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، کھیلنے کی اجازت نہیں ہے، پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔
"اس کا تصور کرنا بھی بہت مشکل ہے، جبکہ یہ اس وقت افغانستان میں ایک حقیقت ہے، افغانستان میں یہ ہی ہو رہا ہے ۔ یہ اچھی چیز نہیں ہے، یہ پہلے سے بہتر نہیں ہے، یہ پہلے سے بدتر ہے۔"
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشترکہ میزبانی میں، خواتین کا ورلڈ کپ زوروں پر ہے، جو ریکارڈ تماشائیوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
ٹیم کو جمعہ کو آسٹریلیا کی سب سے سینئر خاتون سیاستدان وزیر خارجہ پینی وونگ کے دورے سے تقویت ملی، جنہوں نے اس موقع پر ایک پینلٹی بھی لی۔
اگرچہ ان کی کھیل میں مہارت افغانستان کی سب سے اعلیٰ ترین خواتین کھلاڑیوں جیسی نہیں تھی ، لیکن اس دورے نے ملک کو معاشرے میں خواتین کے کردار کے بارے میں ایک مضبوط پیغام بھیجا ہے۔
فیفا کی جانب سے تسلیم نہ ہونے بعد پینی وونگ سمیت آسٹریلیا کے وزراء اور معززین کی جانب سے ٹیم کے لئے یکجہتی کا اظہار کیا گیا، ۔
"ہم دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے، جیسا کہ میں کہتی ہوں کہ دنیا کو بہتر بنانے کے لیے، ہم یہی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، اور ان نوجوان خواتین سے ملنا اور ان کی کچھ کہانیاں سننا ایک حقیقی اعزاز تھا اور مجھے امید ہے کہ ہم انہیں کھیل سے رابطہ رکھنے میں مدد دے سکیں گے۔"
افغانستان کے جلاوطن سفیر وحید اللہ ویسی بھی اس سیشن میں موجود تھے، اور انہوں نے خواتین کے کھیل کو فروغ دینے میں ورلڈ کپ کی اہمیت کے بارے میں ایس بی اسی کو بتایا۔
"ہمارے پاس 10 سے زیادہ ممالک کے معززین، وزراء، سفیروں کی ایک بہت اچھی تعداد موجود تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا اس کے خلاف ہے اور وہ بربریت، طالبانیت اور افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے خلاف ہے۔"
ان کھلاڑیوں کا خواب اگلا ورلڈ کپ ہے، یہ ٹیم بہنوں کی طرح متحد ہو کر کھیل کے لئے تیار ہے۔