یہ اگست 1914 کی بات ہے جب پہلی جنگ عظیم کی خبر دنیا میں پھیلی۔ آسٹریلیا نے مرکزی طاقتوں کے خلاف لڑائی میں برطانیہ کا ساتھ دیا ، جبکہ اس کی جنگ جن ممالک کے خلاف تھی ان میں جرمنی ، ہنگری اور بلغاریہ کے علاوہ سلطنت عثمانیہ شامل تھی۔کثیر القومی آسٹریلین فوج میں لگ بھگ چار لاکھ سے ذائید اندراج شدہ فوجیوں میں سے ایک ہزار سے زیادہ ایب اوریجنل اور ٹورس اسٹریٹ آئلینڈر کے جوانوں نےبھی اپنی خدمات پیش کیں۔اس وقت کے غیر منقسم ہندوستان کے سپاہی اور گورکھا افراد جنگ میں شامل تھے۔ مگر غیر یورپی اور غیر سفید فام افراد کو اس وقت فوج میں کام کرنے کے لئے شامل تو کیا جاتا تھا مگر ان کا نام سرکاری فہرست میں درج نہیں کیا جاتا تھا۔
LISTEN TO

این زیک ڈے کی جنگ میں حصہ لینے والے گمنام مسلم سپاہی
SBS Urdu
08:21
بہت سے دوسرے ثقافتی اعتبار سے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آسٹریلین فوج کا حصہ تھے جن میں ایب اوریجنل، مسلمان، بھارتی، سکھ، گورکھا، اور چینی افراد بھی شامل تھے
پروفیسر ایڈمنڈ چیؤ میلبورن کے چینی میوزیم میں ایک محقق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1903 کے قانون کے باوجود ، بلارت کے البرٹ وکٹر چین جنگ کے اعلان کے صرف ایک ہفتہ بعد اس میں شامل ہونے والے پہلے چینی آسٹریلین بن گئے۔"ااس وقت کے ایک دفاعی قانون کے تحت غیر یوروپی لوگوں کو مسلح افواج میں شامل ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ اسی لئے فوج کا بڑا افرادی حصہ یورپئین نژاد تھا۔
مسلح افواج میں شامل ہونے کے لئے بنیادی طور پر [یوروپی] نسل کا ہونا ضروری تھا۔ تاہم اس میں شامل ہونے والے چینی آسٹریلین باشندوں کو جنگ میں حصہ لینے کے باوجود فوجیوں اور رضاکاروں کی درج فہرست سے خارج کردیا گیا۔
پہلی عالمی جنگ میں چینی آسٹریلین اینزیکس کی تاریخ پر پروفیسر ایڈمنڈ چیؤ کی تحقیق میں اب تک 217 افراد کی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے بتایا کہ ان چینی نژاد آسٹریلینز کو طبی خدمات کے لئے کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ "ان دنوں میں میڈیکل عملے کے طور پر لئے گئے افراد کو پابندی کے باوجود جنگ لڑنے کے لئے منتخب کر لیا گیا تھا۔اور صرف یہ کہہ کر طبی عملے کو محاذ پر لڑنے بھیج دیا جاتا تھا کہ اگر آپ طبی خدامت کے لئے فٹ ہیں تو پھر آپ لڑنے کے لئے بھی کافی فٹ ہیں '۔ اس وقت عوامی سطح پر ہنگامہ برپا ہوا تھا جب چینی آسٹریلن فوجی جارج کانگ مینگ کی پچھلی فوجی خدمات اور ان کے چھوٹے بھائی کے مغربی محاذ پر خدمات انجام دینے کے باوجود انہیں آسٹریلین امپیریل فورس نے مسترد کردیا تھا۔"اور آسٹریلین باشندوں کی طرف سے یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا گیا کہ حکام اس شخص کو کیوں مسترد کر رہے ہیں جس نے جنگی تربیت مکمل کی ہے اور لڑنے کا تجربہ رکھتا ہے۔ ۔"
گیری اوکلے کا کہنا ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر ابوریجنل اور ٹورس اسٹریٹ آئلینڈر کے پس منظر کے مرد شامل ہوئے۔ جلد کی سانولی رنگت کے حامل افراد نے فوج میں ان کے داخلے پر پابندی کے خلاف دیگر طریقے ڈھونڈ لیے۔

Anzac Day has become a symbol of Australia’s national identity Source: Getty Images AsiaPac

Temporary fences are seen outside of the Shrine of Remembrance in Melbourne, Friday, April 23, 2021. Source: AAP
کچھ ایب اوریجنلز یہ کہہ کر فوج میں آنے کی کوشش کرتے کہ ان کی سیاہ جلد دراصل ایک طبی مسئلہ ہے۔ شاید انہوں نے یہ بھی سوچا ہو کہ جنگ کے بعد جب وہ آسٹریلیا واپس آئیں گے تو انہیں ایک مختلف طرح سے دیکھا جائے گا۔ کیونکہ ایب اوریجنل آسٹریلین شہری نہیں تھے لہذا انہوں نے سوچا کہ جنگ سے واپسی پر ہمیں شہری بننے میں مدد ملے گی۔ کئی محقق لکھتے ہیں کہ اس جنگ میں اس وقت کے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمان، سکھ، ہندو، اور دیگر اقوام کے لوگ بھی شامل تھے مگر غیر یورپی ہونے کے باعث ان کا نام لڑنے واکے فوجیوں کی سرکاری فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
آسٹریلیائی نیشنل یونیورسٹی کی ایک محقق ڈاکٹر ایلینا گوور کے مطابقایک بار جب آپ یونیفارم میں آ گئے تو آپ بنیادی طور پر قبول شدہ تھے۔ جب یہ افراد خندقوں میں ہوتے تو پھر رنگ یا مذہب کی پرواہ نہیں کرتے؛محاذ پر تمام فوجی برابر تھے۔
آسٹریلیائی نیشنل یونیورسٹی کی ایک محقق ڈاکٹر ایلینا گوور کے مطابق ، روسی نژاد ملازمین یورپی پس منظر کے باعث لڑنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ مگر ان کے مضحکہ خیز نام رکھے جاتے تھے کیونکہ وہ درست انگریزی نہیں بولتے تھے۔ لوگ ان کے ساتھ غیر ملکیوں جیسا سلوک کرتے تھے ان لوگوں کو قبول کرنے میں کبھی کبھی میدان جنگ میں کئی ماہ لگتے ۔
بدقسمتی سے جنگ سے واپس لوٹنے والے غیر سفید فام فوجیوں کی زندگی بہتر نہیں ہوئی۔ آسٹریلیائی فوجیوں کی اپنی معاشرتی حیثیت بلند کرنے کی کوششیں 1949 تک برآور نہیں ہوئیں جب نسل پر مبنی اندراج میں پابندیاں ختم کردی گئیں۔
پروفیسر ایڈمنڈ چیؤ کا کہنا ہے کہ چینی آسٹریلیائی جنگی ہیرو بلی سنگ کو فوجی افسر آبادکاری اسکیم سے زمین تفویض کرنے کے باوجود ایک افسوسناک انجام کا سامنا کرنا پڑا۔
بدقسمتی سے بہت سارے بچ جانے والوں کے گھر لوٹنے پر ان فوجیوں کی زندگی بہتر نہیں ہوگئی۔ آسٹریلیائی فوجی آسٹریلیائی فوجیوں کی اپنی معاشرتی حیثیت بلند کرنے کی امیدیں 1949 تک پوری نہیں ہوئیں جب نسلی بنیاد پر مبنی اندراج پر پابندیاں ختم کردی گئیں۔
گلیپولی کے سب سے مشہور فائیرنگ کے نشانہ باز بلی سنگ کو ایسی خراب جگہ زمین دی گئی جہاں رہنا ممکن نہیں تھا وہ اس زمین پر زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔ اس نے یہ زمین چھوڑنے کے عوض ملنے والی امدادی رقم بھی نہیں لی اور آخر کار وہ واپس برسبین چلے گیا اور برسبین میں ہی فوت ہو گیا۔
غیر سفید فام یا غیر یورپین فوجیوں کی واپسی کے بعد کی کہانیاں بڑی تلخ ہیں۔
ڈاکٹر گوور نے وضاحت کی ہے کہ کس طرح روسی انزاک جنگ کے بعد کی زندگی کا مقابلہ نہیں کرسکے۔
بہت سے معاملات میں روس سے لازمی فوجی سروس کے باعث بھاگ کر آنے والے بہتر مستقبل کی امید میں اینزیک فوجی بن گئے مگر یہ روسی نژاد یہاں آکر بھی اجنبی تھے۔ انہیں اپنا مقام نہیں مل سکا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے خودکشی کرلی۔ میرا اندازہ ہے کہ بہت سوں کو بعد میں تکلیف دہ تناؤ کا عارضہ لاحق تھا جسے واقعتا کسی نے نہیں سمجھا اور تشخیص کیا اور انہوں نے بدتمیزی کی ، وہ ہر طرح کی پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔

Members of the public gather near the War Memorial in Kings Park, Perth, Saturday, April 24, 2021. 1 Source: AAP
ڈاکٹر گوور یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ روسی انزاکس ان کی خدمات کے بعد آسٹریلیا میں کیسے آباد ہوئے۔
روسی انزاکس مقامی خواتین کی مدد سے آسٹریلین بن گئے جن سے انھوں نے شادی کی۔
ڈاکٹر گوور کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کی کثیر الثقافتی کا آغاز انزاکس کی کہانی میں مختلف ثقافتی اور نسلی پس منظر سے ہوا تھا۔ لہذا یہ واقعی [ایک] بہت اہم پیغام تھا جو غیر یورپین این زیک افراد نے نے [آسٹریلوی] معاشرے کو دیا کہ لوگ رنگ، نسل اور مذہب میں مختلف ہونے کے باوجود آسٹریلیا کا حصہ بن سکتے ہیں۔
انزاک ڈے کا مطلب مختلف لوگوں کے لئے مختلف چیزیں ہیں۔ لیکن گیری اوکلے کا کہنا ہے کہ انڈیجینئیس آسٹریلین باشندوں کے لئے ، 25 اپریل کو مارچ کرنا اس لئے قابل فخر ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ جنگِ عظیم میں ان کی جنگی خدمات کا اعتراف کیا جا رہاہے۔
آسٹریلیا کے یوم اینزیک روایات سے متعلق مزید معلومات کے لئے دیکھیں۔
- اردو پروگرام ہر بدھ اور اتوار کو شام 6 بجے (آسٹریلین شرقی ٹائیم) پر نشر کیا جاتا ہے