Key Points
- رفعت (فرضی نام)کے مطابق وہ اور ان کے بچے اپنے سابقہ شوہر کی درخواست پر پاکستان گئے تھے
- ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں قیام کے دوران گھریلو تشدد بڑھنے کے بعد انہوں نے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کیا
- رفعت کا کہنا ہے کہ سابقہ شوہر کی جانب سے ، ان کے بچوں کے آسٹریلین پاسپورٹ کی تجدید میں رکاوٹ ڈالی گئی۔
- آسٹریلین محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق اگر آپ بیرون ملک کسی مشکل کا شکار ہیں تو مقامی حکام سے رابطہ کریں
- اگر آپ یا آپ کے ارد گرد موجود کسی شخص کو فوری مدد درکار ہے تو ہنگامی قونصلر امداد 24 گھنٹے دستیاب ہے۔
آسٹریلین شہری رفعت* (فرضی نام) کہتی ہیں کہ وہ اوران کے تین بچے 2017 میں اپنے سابق شوہر کی درخواست پر اپنے سسرال والوں کی مدد کے لیے پاکستان منتقل ہوئے۔
، ان کا دعوی ہے کہ ان کے وہاں پہنچنے کے بعد رفعت کے سسرال والوں نے نہ صرف ان کے ساتھ بدسلوکی کی بلکہ ان کے بچوں کو ان کے شوہر کی جانب سے ذہنی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کی وجہ سے بچوں کی صحت متاثر ہوئی۔
رفعت نے ایس بی ایس اردو کو بتایا، "مجھے اور بچوں کو سابقہ شوہر کے پورے خاندان کی طرف سے مسلسل ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا، اور میرے سابق شوہر نے کئی بار مجھے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا ، جس کی وجہ سے میں نے بالآخر اگست 2019 میں اپنا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا،" ۔

Anti-domestic violence campaign (Credit: Getty Images)
وہ کہتی ہیں کہ اس دوران جب انہوں نے آسٹریلیا واپسی کا ارادہ کیا تو ان کے بچوں کے آسٹریلین پاسپورٹ کی میعاد کووڈ 19 کے دوران ختم ہوگئی رفعت کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2021 میں پاکستان میں موجود آسٹریلین ہائی کمیشن سے رابطہ کرکے پاسپورٹ کی تجدید کا عمل شروع کیا۔
رفعت کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پراسلام آباد میں کمیشن کی جانب سے ناکافی امداد نے انہیں اپنے خدشات کو کینبرا میں وزیر خارجہ کے دفتر تک پہنچانے پر مجبور کیا۔"جس کے نتیجے میں، ہائی کمیشن نے مجھے چار ہفتے بعد ملاقات کا وقت دیا،"
رفعت کا کہنا ہے کہ ان کے سابق شوہر نے بچوں کے آسٹریلین پاسپورٹ کی تجدید کے لیے اپنی رضامندی دینے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں ہائی کمیشن نے پاسپورٹ کی درخواستیں دو بار مسترد کر دیں۔
اس کے بعد، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے صورتحال کو حل کرنے کی کوشش میں ایک سال گزارا، اس پورے عمل میں وہ خود کو جلا وطن اور ایک قید میں تصور کر رہی تھیں
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی کوششوں کے باوجود مبینہ طور پر نہ تو آسٹریلین محکمہ خارجہ اور نہ ہی اسلام آباد میں آسٹریلین ہائی کمیشن نے ان سے رابطہ کیا۔
محکمہ خارجہ ا ور آسٹریلین ہائی کمیشن دونوں نے میرے اور میرے بچوں کے لیے کوئی (ہمدردی) ظاہر کیے بغیر ہمیں بیرون ملک (تنہا) چھوڑ دیا۔رفعت
کیا قوانین میں کمی موجود ہے ؟
رفعت نے کہا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ وہ پاکستانی دفترِ خارجہ میں اپنے ایک جاننے والے کی مدد سے اپنے حالات سے نکلنے میں کامیاب رہیں، لیکن وہ ایسے ہی حالات کا شکار دیگر خواتین کے لئے فکر مندی کا اظہار بھی کرتی ہیں
انہوں نے مزید کہا ، "دوسرے اتنے خوش قسمت نہیں ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے ان کے پاس مدد اور ضروری وسائل کی کمی ہو۔"
آسٹریلین محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ محکمہ نے بیرون ملک مقیم تمام آسٹریلین باشندوں کو قونصلر تعاون کی پیشکش کی موجود ہے اور خاندانی تشدد کے الزامات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جاتا ہے ۔

Rafat and her children obtained travel documents and finally left Pakistan (Credit: Getty Images). Credit: Lighthousebay/Getty Images
آسٹریلیا میں قائم اوس پاک ویمن ایسوسی ایشن کی صدر شفق جعفری نے کہا کہ ان کی تنظیم بیرون ملک آسٹریلین خواتین اور بچوں کی مدد کے لیے قانونی ترامیم کا مطالبہ کر رہی ہے جہاں مجرم ان کے پاسپورٹ کی درخواستوں کے لیے رضامندی سے انکار کردیتا ہے۔
محکمہ خارجہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قانون میں تبدیلیوں کو یقینی بنائے کہ متاثرین اور ان کے بچوں کو آسٹریلیا میں محفوظ طریقے سے واپس آنے کے لیے ضروری مدد اور دستاویزات حاصل ہوں۔شفق جعفری
شفق نے کہا، "بہت سے متاثرین آسٹریلیا واپس نہ آنے کی وجہ سے ذہنی تناؤ اور صدمے کا شکار ہوتے ہیں، اور یہاں تک کہ اگر وہ خصوصی سفری دستاویزات کے ساتھ واپس آنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تب بھی وہ آسٹریلیا کے پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں،" شفق نے کہا۔
سڈنی میں مقیم وکیل اعجاز خان کا کہنا ہے کہ اگر آسٹریلین شہری بیرون ملک مقیم ہیں اور ان کے بچوں کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو جاتی ہے تو تجدید کے لئے دونوں والدین کی رضامندی ضروری ہے جو کہ بعض اوقات ایک مسئلہ ہوتا ہے۔
اگر بیرون ملک کسی مشکل کا شکار ہیں تو کیا اقدام اٹھائیں ؟
ڈی ایف اے ٹی کے ترجمان کا کہنا کہ ایسے معاملات میں جہاں والدین میں سے کسی ایک نے بچے کو آسٹریلوی پاسپورٹ حاصل کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہو،ادارہ معاملے کو ایک خصوصی کیس افسر کو تفویض کر سکتا ہے۔ جس کے بعد بچے کے حالات کے پیش نظر اسے پاسپورٹ جاری کیا جا سکتا ہے۔

Department of Foreign Affairs and Trade building - Canberra (Credit: DFAT Twitter)
اگر آپ، یا آپ کے کسی جاننے والے کو فوری مدد کی ضرورت ہے، توہنگامی قونصلر امداد 24 گھنٹے دستیاب ہے۔ کینبرا میں قونصلر ایمرجنسی سینٹر سے ان نمبرز پر رابطہ کریں :
1300 555 135 (آسٹریلیا کے اندر)
+61 2 6261 3305 (بیرون ملک سے)
اعجاز خان نے کہا کہ اگر کوئی اس صورت حال میں پھنس جاتا ہے تو اسے ہائی کمشنر سے رابطہ کرنا ہوگا اور اسمارٹ ٹریولر کی ویب سائٹ پر رجسٹر کرنے کے علاوہ آسٹریلیا کے دفتر خارجہ سے مدد طلب کرنی ہوگی۔
آسٹریلوی حکومت کی اسمارٹ ٹریولر سائٹ کے ساتھ رجسٹر ہونا ضروری ہے، کیونکہ یہ یقینی بناتا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں ضروری مدد اور بچاؤ آسانی سے دستیاب ہوں گے۔اعجاز خان، وکیل
اعجاز خان نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ آسٹریلین فیملی لاء ایکٹ کہتا ہے کہ والدین دونوں کو اپنے بچوں کی پرورش میں یکساں طور پر حصہ ڈالنا چاہیے جب تک کہ گھریلو تشدد، منشیات اور/یا شراب کے سنگین مسائل نہ ہوں۔
تاہم ان کا مزید کہنا ہے، "آسٹریلیا کی فیملی کورٹ کا دوسرے ممالک پر محدود یا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔"
Seek help:
is available for free, 24 hours a day, 7 days a week to support people impacted by domestic, family or sexual violence.
*حفاظتی نقطہ نظر سے نام تبدیل کیا گیا ہے ۔