Key Points
- لاعلاج قرار دئے جانے والے مریض اپنی مرضی سے موت کی درخواست دے سکیں گے
- دو طبی پیشہ ور افراد کو ایک درخواست منظور کرنی ہوگی، جس پر بورڈ غور کرے گا۔
- رضاکارانہ مدد سے مرنے والے ایڈوکیسی گروپ کو توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت سے لوگ درخواست دیں گے۔
NSW میں معاونت کے ذریعے موت کی حمایت کرنے والی شین ہگسن نے ایسے بے شمار لاعلاج افراد سے بات کی جو شدید بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث خود پُر سکون موت کی خواہش رکھتے تھے۔
ایسے لوگوں کے لئے خود مرنے کے وقت کا انتخاب کرنا اب ایک آپشن ہے کیونکہ اب NSW میں بھی لاعلاج قرار دئے جانے والے مریض اپنی مرضی سے رضاکارانہ مدد کے ساتھ خودکشی کر سکیں گے۔ محترمہ ہگسن ڈائینگ ود ڈگنٹی (DWD) کی سربراہ ہیں وہ کہتی ہیں:
"یہ نہ صرف میری 11 سالہ وکالت کی کامیابی کا دن ہے بلکہ اس ریاست کے تمام لوگوں کے لیے بھی اطمینان کا لمحہ ہے جو اس کا انتظار کر رہے تھے،"
18 ماہ کے جائیزے کے بعد یوتھناسیا یا رضاکارانہ مدد سے مرنے کے اس قانون کا فریم ورک ترتیب دیا گیا ہے تا کے یہ یقینی بنایا جا سکے کے تمام حفاظتی پہلوؤں کے ساتھ یہ قوانین کیسے کام کریں گے اس طرح مگر یہ عمل ابھی تک شمالی علاقہ جات اور ACT میں قانونی نہیں ہے۔
NSW میں رضاکارانہ خودکشی کا قانون کیسے کام کرے گا؟
جان لیوا بیماری کے ساتھ مریض جن کے پاس زندہ رہنے کے لیے 6 ماہ یا نیوروڈیجنریٹیو بیماری والے مریض جن کی موت 12 ماہ میں متوقع ہو NSW میں اپنی زندگی رضاکارانہ طور پر ختم کرنے کے لیے درخواست دے سکیں گے۔
وزیر صحت اور اٹارنی جنرل کی طرف سے مقرر کردہ پانچ ممبران پر مشتمل ایک بورڈ کی منظوری کے بعد دو غیر جانبدار اور آذاد ڈاکٹروں کی طرف سے درخواست کی منظوری دی جائے گی۔
NSW ہیلتھ کا کہنا ہے کہ درخواست دہندگان کو "تکلیف کا سامنا ہوتا ہے اور اس سے اس طرح سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا جو ان کے لئے قابل قبول ہو۔"
درخواست دہندگان کو رضاکارانہ طور پر اور بغیر کسی دباؤ کےدرخواست دینا ہوگی، اور ان کی (Voluntary Assisted Dying (VAD کی درخواست ایک مدت کے دوران تواتر کے ساتھ کی گئی ہو۔
گرچہ اہلیت کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ درخوست دہندہ کم از کم 12 مہینوں سے NSW میں رہ رہا ہو، مگر بورڈ رہائشی چھوٹ فراہم کر سکتا ہے۔
سسٹم کے تحت منظوری سے اہل شخص کو اپنی موت کے وقت میں دوا لینے یا دیے جانے کی اجازت ملے گی۔
ایک زیادہ 'پُرسکون موت' ؟
ہگسن نے کہا کہ بعض بیماریاں، جیسے نیوروڈیجینریٹو بیماری موٹر نیورون بیماری، کسی شخص کے لیے اس کی زندگی کے آخری چند ہفتوں کے دوران "ناقابل برداشت" ہو سکتی ہیں اور VAD اس تکلیف سے نجات فراہم کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ حالیہ مہینوں میں NSW میں تقریباً ایک درجن سے زائد لوگوں سے رابطے میں رہی ہیں جنہوں نے قوانین کو استعمال کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔
ہگسن نے کہا کہ آنے والے دنوں میں ان میں سے کچھ ہی افراد اب درخواستیں دے سکتے ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ اب یہ انتخاب کرنے کے لیے زندہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ انہیں وہ پرامن موت نہیں ملی جس کی انہیں امید تھی۔
ہگسن نے کہا کہ دوسرے، جو نجی طور پر قانون سازی کی پیشرفت کی پیروی کر رہے ہیں، ان کے بھی درخواست دینے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ، اگرچہ DWD متعارف کرائے گئے قوانین سے خوش ہیں، لیکن وہ مستقبل میں کچھ ترامیم کی توقع رکھتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وکٹوریہ اور مغربی آسٹریلیا کا تجربہ جس میں کئی سالوں سے قوانین موجود ہیں اب یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگ اکثر درخواست دینے میں بہت دیر کر دیتے ہیں۔ وہ VAD کے لیے اس وقت درخواست دے رہے ہوتے ہیں جب تکلیف ناقابل برداشت ہو جاتی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے جب وہ لفظی طور پر اپنی موت کے ہفتوں یا دنوں میں ہوتے ہیں۔
"یہ زیادہ ہمدردانہ، زیادہ انسانی، زیادہ حقیقت پسندانہ ہو گا کہ لوگوں کو رضاکارانہ مدد سے خودکشی کی اجازت دی جائے کہ جب ان کی تشخیص 12 ماہ سے کم ہو، اور اس طرح وہ درخواست کے عمل سے گزر سکتے ہیں۔
آسٹریلیا کے ایک نوجوان نے برسوں کی تکالیف کے بعد موت کا انتخاب کیا ہے۔ اور یہ اان قوانین نے ممکن بنایا
ایک اور تبدیلی جو DWD دیکھنا چاہتی ہے وہ اسے قومی سطح ایک وفاقی قانون ہے جو فی الحال ٹیلی ہیلتھ کے استعمال پر پابندی لگاتا ہے۔
"یہ اچھا ہوگا اگر کم از کم ان میں سے کچھ اقدامات ٹیلی ہیلتھ کے ذریعے کیے جائیں۔"ہگسن نے کہا کہ ایک پرائیویٹ ممبر بل اس کو حل ہو سکتا ہے ۔
بہت سے گروپس اور مذہبی تنظیمیں اور دینی علما اس عمل اور رضاکارانہ خودکشی کے ایسے کسی بھی قانون کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے قانونِ فطرت کے خلاف قرار دیتے ہیں۔