اسمگلروں کی چنگل سے آزاد مدھو اب دوسروں کے لیے مشعل راہ

انسانی اسمگلروں کی چنگل سے آزادی پانے والی مدھو اب دنیا بھر میں ایسے ہر شخص کی آزادی کا ہنر سیکھ رہی ہے جو اس بھیمانہ دھندے کا شکار بن سکتے ہیں۔

A woman wearing a blue shirt and smiling. There are glass windows behind her.

Madhu Regmi is on a scholarship from Nepal to study at Charles Darwin University. Source: SBS / Laetitia Lemke

نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو کے ایک یتیم خانے میں پلنے والی مدھو راگمی اور یوراج پوکھریل ان دنوں آسٹریلیا کے شہر ڈارون کی چارلز ڈارون یونیورسٹی میں انسانی اسمگلنگ سے متعلق مضامین کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ یتیم خانے میں بچپن گزارنے کے بعد انہیں لگتا ہے کہ ہزاروں یتیم بچے اور بچیاں ان کے بہن اور بھائی ہیں۔

مدھو کہتی ہیں کہ نیپال میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور کووڈ کی وباء کے بعد بیرون ملک انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بھی انسانوں کی اسمگلنگ گھمبیر صورتحال اختیار کر چکی ہے۔
A woman and man walking along a university campus.
Madhu Regmi and Yuvraj Pokhrel at the Charles Darwin University Campus in Darwin, where they've both been given scholarships. Source: SBS / Laetitia Lemke
ان کے 28 سالہ ساتھی یوراج اس وقت یتیم ہوئے جب داخلی خانہ جنگی کے دوران ان کے والد کو قتل کر دیا گیا۔ "میرے ذہن میں ابھی تک وہ تمام یادیں باقی ہیں ایک گہرے زخم کی طرح جو کبھی بھی مجھ سے دور نہیں رہتے۔"

وہ خود کو اس لیے خوش نصیب تصور کرتے ہیں کہ انہیں فوری طور پر مائیٹی نیپال نامی یتیم خانے منتقل کر دیا گیا تھا اور یوں وہ انسانی اسمگلروں کی چنگل سے آزاد رہے جبکہ ان کے بشتر دوست اور احباب اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔ " میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے حالات دیکھے جب انہیں فحاشی کے اڈوں اور جبری مزدوری میں استحصال کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔"
A woman in a blue shirt cutting a blue ribbon. There are other people next to her in the same shirt, and trees behind them.
Maiti Nepal founder Anuradha Koirala celebrates the 32nd anniversary of her work. Source: Supplied / Maiti Nepal
اپنی زندگی کا یہ تجربہ لے کر اور تعلیم و تربیت مکمل کرکے یہ دونوں واپس نیپال کے اسی یتیم خانے پہنچے اور ایک مقامی تنظیم کے ساتھ مل کر اس انسانی المیئے کا حل تلاش کرنے میں لگ گئے۔ یوراج کہتے ہیں: "انسانوں کی اسمگلنگ دنیا بھر میں بڑے غیر قانونی دھندوں میں شامل ہے۔ انسان برائے فروخت نہیں ہیں۔" ان کے بقول غیر قانونی اسلحے کی خریدوفروخت کے بعد انسانوں کی اسمنگلنگ سب سے بڑا غیر قانونی کاروبار ہے۔
A woman in a red dress speaking into a microphone.
Madhu Regmi, seen here MCing a 2022 International Women's Day event at Maiti Nepal, says trafficking is a "very big issue" in Nepal. Source: Supplied / Madhu Regmi
مائیٹی نیپال یتیم خانے کی بانی انورادھا کوئرالہ کے بقول ہر روز ہی یہاں ایک نئے یتیم بچے کو لایا جاتا ہے۔ "لوگ کہتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ کی اصلی وجہ غربت ہے لیکن میں یہ نہیں مانتی، میرے خیال میں تعلیم کا فقدان اس کی اصل وجہ ہے۔ "اگر نیپال میں تعلیم مفت اور لازمی ہوتی تو یہ صورتحال درپیش نہ آتی۔"

وہ مزید کہتی ہیں کہ ملازمتوں کے کم مواقع اور بھارت کے ساتھ کھلا بارڈر ہونے کی وجہ سے بھی انسانی اسمگلنگ کا دھندہ کنٹرول سے باہر ہے۔
A woman and man sitting at a computer desk in a library.
Yuvraj Pokhrel and Madhu Regmi studying in the Charles Darwin University library. Source: SBS / Laetitia Lemke
گزشتہ قریب تین دہائیوں سے اس تنظیم نے ہزاروں یتیم بچوں کو پالا پوسا ہے۔ "جیسے ہی ان یتیم بچوں کو یہاں لایا جاتا ہے ہم ان کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔"

اس تنظیم سے وابستہ دو قانونی ماہرین کی مدد سے کم از دو ہزار انسانی اسمگلروں کو قانون کے حوالے کیا جاچکا ہے تاہم مجموعی طور پر انسانی اسمگلنگ کا کاروبار اس تمام معاملے میں خاصا حاوی ہے۔

سال 2024 کی ایک رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ سے وابستہ جدید غلامی کے کاروبار کا تخمینہ 236 بلین ڈالر لگایا گیا، جو کہ 10 سالوں میں 35 فیصد زیادہ ہے۔

انسداد غلامی آسٹریلیا کی ڈائریکٹر جینیفر برن کا کہنا ہے کہ "عالمی سطح پر [متاثرین کی] تعداد خوفناک ہے۔" "ہم جانتے ہیں کہ ہماری عالمی سپلائی چینز میں، ہمارے فون میں استعمال ہونے والی معدنیات نکالنے والی کانوں میں، کھانے کی صنعت اور کپڑے کی صنعت میں کام کرنے والے بچوں کا استحصال کیا جاتا ہے، اور اسی طرح دنیا بھر میں۔"

جدید غلامی کے عالمی تخمینے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2021 میں 50 ملین لوگ متاثر ہوئے۔ آسٹریلیا بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ برن کا کہنا ہے کہ "آسٹریلوی فیڈرل پولیس کو ہر سال جبری شادی کی مزید رپورٹس ملتی ہیں… اور ہم جانتے ہیں کہ متاثر ہونے والوں میں زیادہ تر بچے ہیں۔"

شئیر
تاریخِ اشاعت 31/07/2024 5:32pm بجے
تخلیق کار Laetitia Lemke
ذریعہ: SBS