نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو کے ایک یتیم خانے میں پلنے والی مدھو راگمی اور یوراج پوکھریل ان دنوں آسٹریلیا کے شہر ڈارون کی چارلز ڈارون یونیورسٹی میں انسانی اسمگلنگ سے متعلق مضامین کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ یتیم خانے میں بچپن گزارنے کے بعد انہیں لگتا ہے کہ ہزاروں یتیم بچے اور بچیاں ان کے بہن اور بھائی ہیں۔
مدھو کہتی ہیں کہ نیپال میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور کووڈ کی وباء کے بعد بیرون ملک انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بھی انسانوں کی اسمگلنگ گھمبیر صورتحال اختیار کر چکی ہے۔
Madhu Regmi and Yuvraj Pokhrel at the Charles Darwin University Campus in Darwin, where they've both been given scholarships. Source: SBS / Laetitia Lemke
وہ خود کو اس لیے خوش نصیب تصور کرتے ہیں کہ انہیں فوری طور پر مائیٹی نیپال نامی یتیم خانے منتقل کر دیا گیا تھا اور یوں وہ انسانی اسمگلروں کی چنگل سے آزاد رہے جبکہ ان کے بشتر دوست اور احباب اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔ " میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے حالات دیکھے جب انہیں فحاشی کے اڈوں اور جبری مزدوری میں استحصال کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔"

Maiti Nepal founder Anuradha Koirala celebrates the 32nd anniversary of her work. Source: Supplied / Maiti Nepal

Madhu Regmi, seen here MCing a 2022 International Women's Day event at Maiti Nepal, says trafficking is a "very big issue" in Nepal. Source: Supplied / Madhu Regmi
وہ مزید کہتی ہیں کہ ملازمتوں کے کم مواقع اور بھارت کے ساتھ کھلا بارڈر ہونے کی وجہ سے بھی انسانی اسمگلنگ کا دھندہ کنٹرول سے باہر ہے۔
Yuvraj Pokhrel and Madhu Regmi studying in the Charles Darwin University library. Source: SBS / Laetitia Lemke
اس تنظیم سے وابستہ دو قانونی ماہرین کی مدد سے کم از دو ہزار انسانی اسمگلروں کو قانون کے حوالے کیا جاچکا ہے تاہم مجموعی طور پر انسانی اسمگلنگ کا کاروبار اس تمام معاملے میں خاصا حاوی ہے۔
سال 2024 کی ایک رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ سے وابستہ جدید غلامی کے کاروبار کا تخمینہ 236 بلین ڈالر لگایا گیا، جو کہ 10 سالوں میں 35 فیصد زیادہ ہے۔
انسداد غلامی آسٹریلیا کی ڈائریکٹر جینیفر برن کا کہنا ہے کہ "عالمی سطح پر [متاثرین کی] تعداد خوفناک ہے۔" "ہم جانتے ہیں کہ ہماری عالمی سپلائی چینز میں، ہمارے فون میں استعمال ہونے والی معدنیات نکالنے والی کانوں میں، کھانے کی صنعت اور کپڑے کی صنعت میں کام کرنے والے بچوں کا استحصال کیا جاتا ہے، اور اسی طرح دنیا بھر میں۔"
جدید غلامی کے عالمی تخمینے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2021 میں 50 ملین لوگ متاثر ہوئے۔ آسٹریلیا بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ برن کا کہنا ہے کہ "آسٹریلوی فیڈرل پولیس کو ہر سال جبری شادی کی مزید رپورٹس ملتی ہیں… اور ہم جانتے ہیں کہ متاثر ہونے والوں میں زیادہ تر بچے ہیں۔"