Feature

سرخ لائن ۔ آسٹریلیا میں بھارتی جاسوسوں کا جال کیسے بے نقاب ہوا؟

بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کو آسٹریلیا اور امریکہ میں خاصی گرمجوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا ہے تاہم یہاں جاسوسوں کے جال کے پکڑے جانے کے بعد حالات میں تبدیلی کا خدشہ خاصا واضح ہے۔

Narendra Modi walks in front of Australian soldiers standing at attention

India’s Prime Minister Narendra Modi in Sydney for a state visit in May 2023. Source: AAP / Dean Lewins

آسٹریلیا میں بھارتی جاسوسوں کے ایک نیٹ ورک کی بے نقابی اور ان ایجنٹس کی ملک بدری کو بھارت جیسی ابھرتی طاقت کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی قرار دیا جارہا ہے۔

گزشتہ ہفتے انکشاف ہوا تھا کہ آسٹریلیا میں سکھ برادری کی نگرانی کے لیے ۔بھارتی خفیہ ایجنٹوں کا ایک نیٹ ورک کام کر رہا تھا جسے بے نقاب کرکے ملک بدر کر دیا گیا۔

ایس بی ایس نے تصدیق حاصل کی ہے کہ یہ ایجنٹ بھارتی خارجہ انٹیلیجنس سروس سے وابستہ تھے۔

ولیئم ستولز کا تعلق آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے ہے اور وہ نیشنل سکیورٹی کے ماہر ہیں۔

آسٹریلیا میں بھارتی خفیہ ایجنٹس کے جال کا انکشاف سال 2021 میں اس وقت کے آسٹریلیئن سکیورٹی انٹیلیجنس آرگنائزیزیشن کے سربراہ مائیک برگیس نے کیا تھا۔ ان کے بقول جاسوسوں کا ایک جال بچھایا گیا ہے، جس نے سیاستدانوں اور پولیس حکام سے رابطے قائم کیے ہیں۔ اس وقت انہوں نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ جاسوس کس ملک کے لیے کام کر رہے تھے تاہم واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان کا تعلق بھارت سے تھا۔

جناب برگیس کے بقول ان افراد نے یہاں مقیم بھارتیوں سے متعلق معلومات جمع کیں اور آسٹریلیا کے تجارتی رابط کی خفیہ معلومات اور ہوائی اڈوں پر سکیورٹی انتظامات سے متعلق ڈیٹا جمع کیا تھا۔
A man with a shaved head wearing a blue suit stands in front of two microphones.
ASIO director-general Mike Burgess reported in 2021 that a "nest of spies" had infiltrated Australia. Source: AAP / Mick Tsikas
یہ انکشافات اس وقت سامنے آئے جب بھارتی حکومت کی جانب سے دنیا بھر میں مقیم سکھ برادری پر کڑی نظر رکھی گئی۔ سکھ برادری کا تعلق بھارتی پنجاب سے ہے اور وہ بھارتی حکومت نے 1980 کی دہائی سکھ برادری کے علیحدہ خالستان ملک کی تحریک کو کچل دیا تھا۔

گزشتہ ہفتے امریکہ کی جانب سے خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ بھارتی خفیہ ایجنٹس ہی سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنون کی موت کے ذمہ دار تھے جو وزیر اعظم نریندرا مودی کے سخت مخالف ہیں۔
اسی طرح کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارتی حکام ہی ایک اور سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نیجار کی موت کے ذمہ دار ہیں۔

A yellow banner with blue writing labelled Khalistan Referendum, with leader Hardeep Singh Nijjar centre of poster
A banner showing the late Sikh separatist leader Hardeep Singh Nijjar outside the Guru Nanak Sikh Gurdwara Sahib in Surrey, British Columbia, Canada, in 2023.
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے وابستہ ولیئم ستولز کہتے ہیں کہ ان سب کے بعد بھارت کے دوست سمجھے جانے والے ملک جیساکہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور برطانیہ میں اب یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ بھارت 'سرخ لائن' پار کر رہا ہے۔

ان کے بقول میڈیا میں نشر ہونے والی حالیہ رپورٹس بظاہر بھارت کو یہ پیغام پہنچانے کے مشن کا حصہ ہوسکتی ہیں کہ سلسلہ بند کیا جائے۔

گریفتھ یونیورسٹی سے وابستہ ایئن ہال کے بقول آسٹریلیا میں سکھ برادری کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ یاد رہے کہ پنجابی زبان یہاں بولنے والی تیزی سے بڑھنے والی زبانوں میں کافی آگے ہے اور یہاں سکھ مذہب کے پیروکاروں کی تعداد گزشتہ ایک دہائی میں تین گنا بڑہ چکی ہے۔

ایئن ہال کہتے ہیں کہ خالستان تحریک کے لیے بھارت میں اتنی گرمجوشی اور حمایت دیکھنے کو نہیں ملتی جتنا کہ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں۔
ان کے بقول سکھ برادری کی جانب سے مختلف اقدامات جیساکہ خالستان کے لیے ریفرنڈم کے انعقادات کو بھارت اپنی ملکی سلامتی کے خلاف قرار دیتا ہے۔

ہال کے بقول بھارت کے لیے خالستان تحریک کو خطرناک سمجھنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں 1985 کے دوران ایئر انڈیا کے طیارے کو بم سے اڑانے کا واقعہ سرفہرست ہے جس میں تین سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ ان کے بقول اس کے باجود آسٹریلیا میں جاسوسوں کا نظام قابل قبول نہیں۔

آسٹریلیا میں سکھ کمیونٹی کے رہنما سمر کوہلی کہتے ہیں کہ ان کی برادری کی جاسوسی کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے ایس بی ایس کو بتایا کہ یہ سلسلسہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ان کے بقول آسٹریلیا میں حکام کو اس بابت شکایت کی گئی ہے۔ ان کے مطابق سکھ کمیونٹی کو احساس ہوا کہ ان کی برادری کے ہر پروگرام میں انڈیئن ہائی کمیشن کے نمائندوں کی موجودگی نے ان کے شک کو یقین میں بدلا۔

A man wearing a turban and a mask carries a box of food next a van
Members of the Sikh community came to prominence during the COVID-19 pandemic through their work providing free meals to those in need. Source: AAP / Daniel Pockett
ملیبورن میں خالستان سے متعلق ریفرنڈم کے دوران سکھ برادری اور ان کے اس کام کے مخالفین کے مابین جھڑپیں دیکھی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سکھ شہری آسٹریلوی حکام کی جانب سے انہیں فراہم کی گئی تحفظ پر خوش ہیں لیکن وزیر اعظم انتھونی البنیزی کی جانب سے بھارتی ہم منصب نریندرا مودی کے لیے گرمجوشی کے استقبال میں ان کے لیے "باس" کا لفظ استعمال کرنے پر خوش نہیں۔

Anthony Albanese and Narendra Modi hold hands on a stage.
Indian Prime Minister Narendra Modi in Sydney with Prime Minister Anthony Albanese (right). Source: AAP, AP / Mark Baker
وزیر اعظم البنیزی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے کسی دوسرے مہمان رہنما کی طرح وزیر اعظم مودی کا استقبال کیا تھا۔

حکومت کی جانب سے بھارتی ایجنٹس سے متعلق رپورٹ پر تبصرہ نہیں کیا گیا جبکہ بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے بھی جواب موصول نہیں ہوا۔

شئیر
تاریخِ اشاعت 9/05/2024 3:22pm بجے
تخلیق کار Charis Chang
پیش کار Shadi Khan Saif
ذریعہ: SBS