آسٹریلیا کے وزیر اعظم کے دورہ بھارت کےدوران بھارت میں انسانی حقوق کے مسائل پر بحث

ایک ایسے وقت جب وزیر اعظم انتھونی البانیز بھارت کا دورہ کر رہے ہیں، بھارت میں مبینیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ایک بار پھر زیرِ بحث آرہے ہیں۔

ALBANESE MODI HEADER.jpg

Questions about Narendra Modi's role in the Gujarat riots have resurfaced as Prime Minister Anthony Albanese prepares to travel to India.

اہم نکات
  • بھارتی رہنما نریندر مودی کو مسلمانوں کے خلاف بدسلوکی کی اجازت دینے کے الزامات کا سامنا ہے، جس کی وہ تردید کرتے ہیں۔
  • سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2002 کے فسادات میں 1,044 افراد - اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن 250 سے زیادہ ہندو - ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔
  • وزیر اعظم انتھونی البانی اس وقت ہندوستان کے دورے پر ہیں
انتباہ: اس مضمون میں جنسی زیادتی سمیت تشدد کے حوالے شامل ہیں۔
احمد (فرضی نام ) نے کئی دہائیوں سے گجرات کے پرُ تشدد واقعات پر مبنی ایک فوٹو البم رکھا ہوا ہے۔ جن میں جلی ہوئی لاشیں اور بچے دیکھے جا سکتے ہیں۔ دوسری تصاویر میں پُرتشدد حملوں کے آثارنظر آتے ہیں۔
ایس بی ایس نیوز نے انُ تصاویر کو دیکھا ہے مگر تکلیف دہ ہونے کے باعث انہیں شائع نہیں کیا جا سکتا، یہ تصاویر گجرات میں 2002 کے فسادات کے فوراً بعد لی گئی تھیں جو بھارت کے مغربی ساحل کے پاس ہے۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تین ماہ تک جاری رہنے والے فسادات میں 1,044 افراد ہجومی تشدد میں قتل ہوئے، ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
آگ لگنے کی وجہ بھارت کے اندر اور بیرونی دنیا میں بھی متنازعہ رہی - ایک کمیشن کے مطابق یہ آگ مسلمانوں نے منصوبہ بندی کرکے لگائی، مگرایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ یہ ایک حادثہ تھا - لیکن بالآخر 35 افراد کو اس جرم پر سزا سنائی گئی۔
ان فسادات میں جتنے حملے گجرات کی مسلم آبادی پر ہوئے انہیں میں سے ایک حملے میں احمد کے والد نے اپنی بیوی کو بچالیا مگر ان کے خاندان کا ایک فرد مارا گیا تھا۔
احمد، جو اب آسٹریلیا میں مقیم ہیں، کہتے ہیں، " اگر علاقے کی حفاظت پر کمپرومائیز(رعایتی طور پر نظرانداز) کیا گیا جسکے باعث ہم پر ہجوم نے حملہ کیا … تو انہیں (نظر انداز کرنے والوں کو) زہر کھا لینا چاہیے۔"

'ایک لفظ: خوف'

وزیر اعظم انتھونی البانیز اپنے ہم منصب نریندر مودی سے ملنے کے لیےبھارت میں ہیں، مسٹر مودی فسادات کے وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔آسٹریلیا کے 25 کاروباری رہنماؤں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے، مسٹر البانیز اس سال کے آخر تک دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ بھارتی بین الاقوامی طلباء آسٹریلیا کے لئے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے ۔ مردم شماری کے مطابق آسٹریلیا آنے والوں میں بھارت نے چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
حالانکہ مسٹر البانیز کی بنیادی توجے تجارت پر ہوگی مگرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات زیرِ بحث ہیں جن میں بھارت کی مسلم آبادی سے امتیازی سلوک کے واقعات نمایاں ہیں۔
بھارت کی سپریم کورٹ میں ایک سینئر پولیس افسر نے بھارت کے چوتھے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے وزیراعظم مسٹر مودی پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے گجرات میں 2002 کے فسادات پر آنکھیں بند رکھی تھیں۔
مسٹر مودی نے ہمیشہ ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے، اور 2012 میں بھارتی عدالت نے انہیں بری کر دیا تھا۔لیکن اس فیصلے کے باوجود، انسانی حقوق کے گروپوں اور سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2014 میں ان کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہندو قوم پرستی کو بڑھاوا ملا ہےاور گجرات کے فسادات پر الزامات اس وقت جنوری میں پھر سے سامنے آئے، جب بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم نے برطانیہ کی حکومت کی ایک رپورٹ کا انکشاف کیاجسکے مطابق وہ (مسٹرمودی) فسادات کے دوران ملزمان کو استثنیٰ کا ماحول" پیدا کرنے کے لیے "براہ راست ذمہ دار" تھے، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان فسادات میں نسل کشی کی تمام علامات موجود تھے "
دستاویزی فلم کو مسٹر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف سے سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا، جس نے گجرات پر مرکوز فلم کو ہنگامہ آرائی کے ذریعے بھارت میں نشر کرنے سے روک دیا۔
ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ " اس فلم میں تعصب، حقیقت کی کمی اور مسلسل نوآبادیاتی ذہنیت واضح طور پر نظر آتی ہے۔"
اس کے فوراً بعد، نئی دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر پر حکام نے چھاپے مارے، جس کے بارے میں حکام کا اصرار تھا کہ بی بی سی کے ٹیکس کی تحقیقات کے لئے یہ چھاپہ مارا گیا تھا۔ چھاپے کے دوران مبینہ طور پر صحافیوں کی دستاویزات اور فونز کی تلاشی لی گئی۔
اس وقت اپنے تجربے کی بنیاد پر، احمد کا پختہ یقین ہے کہ مسٹر مودی اور بی جے پی گجرات کے تشدد میں ملوث تھے۔وہ کہتے ہیں کہ "ہندوستان کی اپنی یادوں کا اگر میں خلاصہ ایک لفظ میں کروں تو وہ ہیں: خوف،"

قابل قدر اسٹریٹجک پارٹنر

اگست میں، اور کے علاوہ اجتماعی عصمت دری کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 افراد کی جلد رہائی پر دستخط کئے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ (HRW) کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ بین الاقوامی برادری میں بہت سے لوگ بھارت کو ایک "قابل قدر اسٹریٹجک" پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں، کیونکہ چین کے مقابلے میں بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔
An armed policeman stands in front of a burning shopfront.
Official figures say 1,044 people, mostly Muslims, were killed during the Gujarat riots in 2002. Source: AFP / STR / AFP via Getty Images
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے ایک رکن کے طور پر، ہندوستان کو اندرون ملک انسانی حقوق کے معیار کو برقرار رکھنا چاہیے۔
HRW کی رپورٹوں میں یہ بھی خبردار کیا گیا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں اور ہجومی تشدد میں اضافہ ہو ا ہے، جس میں 2020 میں دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد میں 53 افراد ہلاک ہوئےجن میں سے 40 مسلمان تھے۔
HRW نے کہا کہ جن اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ان میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ اور عیسائی اقلیتیں بھی شامل ہیں اسی دوران قوم پرست گروہوں کو نرم عدالتی فیصلوں سے ڈھیل ملی ہے۔
دہلی میں تشدد مسٹر مودی کی حکومت کے نافذ کردہ متنازعہ شہریت کے قوانین کے خلاف مہینوں کے مظاہروں کے بعد شروع ہوا، جس کے بارے میں ۔ مگر مسٹر مودی نے اس الزام کی تردید کی۔
محترمہ گنگولی نے کہا کہ بی جے پی اور اس سے وابستہ تنظیموں نے "ایک طویل عرصے سے ہندو اکثریتی قوم پرست نظریہ کو فروغ دیا ہے"، جس کے اراکین اور حامیوں پر نفرت انگیز تقریریں کرنے، تشدد پر اکسانے، اور خود تشدد کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت ان جرائم کرنے والوں اور ان جرائیم کے حامیوں کے خلاف غیر جانبدارانہ تفتیش اور مقدمے چلانے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری طرف حکام نے نہ صرف اپنے ناقدین پر سیاسی الزامات کے ذریعے حملے کیے بلکہ بعض مخالفین کو جیل بھی بھیجا ہے۔"
HRW نے خبردار کیا کہ گائے کا کاروبار کرنے والے افراد کا ماورائے عدالت قتل بھی کیا جا تا رہا ہے۔ ہندو گائے کو مقدس سمجھتے ہیں۔ فروری میں ریاست ہریانہ میں دو مسلمانوں کو مبینہ طور پر قتل کرکے جلا دیا گیا تھا، پولیس نےایک مشتبہ شخص کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے جس کے بارے میں ۔

'مغربی صحافت کی اخلاقی کالونیاں'
اس رپورٹ پر تبصرے کے لئے ایس بی ایس نیوز نے مسٹر مودی کے دفتر سے رابطہ کیا مگر اس کی درخواست کا جواب نہیں دیا گیا۔
یاد رہے کہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد مستر مودی نے اعلانیہ طور پر "اقلیتی یا اکثریت" کی طرف سے مذہبی اشتعال انگیزی کو مسترد کیا تھا۔ مسٹر مودی نے عہد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس طرح کے تشدد کی شدید مذمت کرتے ہیںاور ان کی حکومت اس سلسلے میں سختی سے کام لے گی،"
جے شاہ، اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی آسٹریلیا کے صدر ہیں گرچہ وہ بی جے پی یا بھارتی حکومت کے ترجمان نہیں مگر انہوں نے ان دعوؤں کو مسترد کیا کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد بڑھ رہا ہے۔
JAPAN-US-AUSTRALIA-INDIA-DIPLOMACY
Mr Modi (second from right) and India will host the G20 Leaders' Summit this year. Source: AFP / SAUL Loeb / AFP via Getty Images
مسٹر جے شاہ کے مطابق مغربی میڈیا کے حلقوں میں جس سرکلر کا حوالہ دے کر بہت کثرت سے سوال پوچھے جاتے ہیں وہ سوالات اصل حقائق سے دور کمتر صحافت کی عکاسی کرتے ہیں۔
مسٹر شاہ نے کہا کہ مسٹر مودی کی قیادت میں بھارت نے COVID-19 کے بحران کے دوران "اپنے تمام شہریوں کا خیال رکھا" تھا، اور ابھی تک ان کی اس زبردست کوشش میں امتیازی سلوک کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی 1.4 بلین آبادی متحد اور پراعتماد ہے کہ ان کا ملک مغربی صحافت یا کسی اور کی اخلاقی کالونیاں نہیں بنے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے جمہوری ادارے مضبوط اور مغربی ممالک کی برابری کی سطح پر ہیں بلکہ کئی معاملات میں اوپر ہیں اور بیرونی مداخلت کے بغیر اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل ہیں۔

مسٹر شاہ نے کہا کہ دونوں رہنما جس بات پر مذاکرات کرتے ہیں وہ ان کا اپنا "متفقہ ایجنڈہ" ہے، لیکن امید ہے کہ تجارت کو بڑھانا، موسمیاتی تبدیلی، ٹیکنالوجی پر تعاون، اور "یقینا کرکٹ" جیسے موضوعات ایجنڈے میں شامل ہوں گے۔

'سفارتکاری کی بارودی سرنگیں

لا ٹروب یونیورسٹی میں بھارتی سیاست کے ماہر رابن جیفری نے تسلیم کیا کہ بھارت-آسٹریلیا تعلقات میں "بہت سے چھوٹے سفارتی موضوعات پر اختلافات ہیں۔
مسٹر جیفری نے کہا کہ اس ہفتے کیرنز میں ایک خاتون کے قتل کے الزام میں ایک بھارتی شخص کی حوالگی نئی دہلی کے ساتھ "پسِ پردہ محتاط سفارتی کام" کا نتیجہ ہے۔بی جے پی کو عوامی حمایت حاصل ہے اور وہ اس ماہ انتخابات کے بعد تین ریاستوں میں حکومت بنائے گی، جن میں عیسائی آبادی والی دو ریاستیں بھی شامل ہیں۔ مسٹر جیفری نے کہا کہ جماعت کی سیاسی اپیل کوبھارت میں ایک "لمبے عرصے" سے حمایت ملی ہوئی ہے اور دوسری طرف ملک میں تکنیکی ترقی کی مثالوں میں وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل ادائیگیوں کا تعارف شامل ہے جس نے بھارتی عوام کی زندگیوں کو تیزی سے بدل دیا ہے۔مگر ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی کا ایک "فیصلہ کُن مقصد" " ہندوتوا پر مبنی ہم آہنگ ہندوستان بھی تھا۔وہ کہتے ہیں کہ مذہبی اپیل کا استعمال کرتے ہوئے بی جے پی ایک واحد ورژن بنانا چاہتی ہے، جو ہندو بالادستی کی تائید کرتا ہو اور یہ کام اکثریتی حکومت کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے ۔
مسٹر جیفری نے متنبہ کیا کہ مذہبی اقلیتوں بشمول ہندوستان میں رہنے والے تقریباً 200 ملین مسلمانوں کو دیوار سے لگانے سے مزید کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ "یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ کسی ملک کی آبادی کے اتنے بڑے حصے کو لمبے عرصے تک نشانہ بنانے پر اسکی طرف سے کوئی ردِعمل نہیں ہوگا ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو مسٹر جیفری کو خدشہ ہے کہ ہندو قوم پرست تحریک جارحانہ انداز میں جواب دے گی اور یہ سب ملک کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ "گجرات میں گودھرا ریل آتشزدگی کے بعد بھی اسی طرح کا لہجہ اور بیانیہ اپنایا گیا تھا۔ اور یہ بیانات دئے جاتے تھے کہ اب وقت آگیا ہے کہ انہیں ان کی جگہ پر رکھا جائے۔ ہر کوئی جانتا تھا ان بیانات کا اصل نشانہ کون سی اقلیت تھی۔
آسٹریلیائی اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی تجزیہ کار تیستا پرکاش کا خیال ہے کہ 2002 کے بعد مسٹر مودی بدل گئے ہیں کیونکہ انہیں یہ احساس ہو چکا ہے کہ عالمی سطح پر بھارت کا مقام بڑھانے کے لئے تشدد کی چھاپ ختم کرنا ہوگی۔ وہ کہتی ہیں کہ بھارت میں ایک کامیاب لیڈر بننے کے لیے آپ بنیادی طور پر ایک ہی قسم کی چیزوں کو لے کر ذیادہ دیر تک نہیں چل سکتے۔ آپ کو ایک سیکولر لیڈر بننا ہے، اور انہوں نے یہ سبق سیکھ لیا ہے،
"آپ کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ واقعات قابو میں رہیں، کیونکہ آپ بین الاقوامی میڈیا سے یہ سب ذیادہ عرصہ نہیں چھپا سکتے۔ "
ڈاکٹر پرکاش نے کہا کہ حالانکہ ہندو عقیدہ بی جے پی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے مگر مسٹر مودی ہندو ازم کو ایک جدید شکل کے طور پر "بہت اسٹریٹجک طریقے سے" پیش کرتے ہیں۔ جی۔20 کی تیاریوں کے دوران، سنسکرت میں کہا گیا ہے: "دنیا ایک خاندان ہے"۔
Two men shake hands in front of Indian and Australian flags.
Mr Modi had a strong relationship with former prime minister Scott Morrison. Credit: PMO Australia
‘ ڈاکٹر پرکاش کہتے ہیں کہ ضرورت ہے کہ ہندومت کو موجودہ جغرافیائی سیاسی، جغرافیائی اقتصادی بحرانوں کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جائے جو مختلف براعظموں میں سامنے آ رہے ہیں،‘انہوں نے کہا کہ معاشی اصلاحات کی وسیع اپیل پالیسیوں میں نظر آتی ہے جس کا مقصد ملک میں اندرونی اخراجات کو کم کرنا ہے - جیسے گیس اور تیل کی سبسڈی - اور "سیکیورٹی پر مبنی تحفظ" پر توجہ مرکوز کرنا،‘‘ انہوں نے کہا کہ انکا طرز عمل ناقابل تسخیر ہونا ہے۔ وہ بدعنوان لیڈر نہیں ہیں … اگر میں اسے ایک لفظ میں سمیٹ سکوں تو وہ بنیادی طور پر کرشمہ ساز ہیں۔

'بند دروازوں کے پیچھے'

وزیر خارجہ پینی وونگ کا بیانیہ گزشتہ ہفتے نئی دہلی کے اپنے دورے کے دوران بدل گیا۔ بدھ کے روز، سینیٹر وونگ نے گجرات کے واقعات پر الزامات کو "بھارتی نظام انصاف کا معاملہ" قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ یہ معاملہ طے پا گیا ہے۔ انہوں نے بی بی سی کے دفتر پر چھاپے پر براہ راست تبصرہ نہیں کیا، بلکہ کہا کہ کینبرا انسانی حقوق کے مسائل پر نئی دہلی کے ساتھ مکالمہ جاری رکے ہوئے ہے۔۔جمعرات کی شام صحافیوں کے بار بار سوالات کے بعد، سینیٹر وونگ نے تصدیق کی کہ انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ اس پر بات کی۔ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نجی طور پر ان معاملات پر بات کرتے ہیں مگر عوامی فارمز پر اس پر کوئی بیان نہیں دیں گی۔
Woman waves as she boards a plane.
Foreign Minister Penny Wong's language shifted in India this week. Source: AAP / LUKAS COCH/AAPIMAGE

ڈاکٹر پرکاش نے تسلیم کیا کہ ہندوستان میں پولرائزیشن عروج پر ہے، بعض مذاہب اور ذات پات کے گروہوں کو "دوسرے پر ترجیح دی جا رہی ہے"، جس پر مسٹر مودی نہ تو عوامی سطح پر تنقید کرتے ہیں اور نہ ہی حمایت ۔ان کے مطابق اس معاملے پر مسٹر مودی کی جانب سے ایک غیر فعال خاموشی ہے،، ڈاکٹر پرکاش نے کہا کہ جیسے جیسے آسٹریلیا میں بھارتی باشندوں کی تعداد بڑھ رہی ہے کینبرا بھارت میں مذہبی پولرائزیشن کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتا رہے گا۔

احمد کا انتھونی البانی کو پیغام
منگل کو، اپنی روانگی سے ایک دن پہلے، مسٹر البانی نے "مشترکہ جمہوری اقدار پر مبنی بھرپور دوستی" کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سال آسٹریلیا کے دورے پر مسٹر مودی کے استقبال کے منتظر ہیں۔ان کے تبصروں کی اتحادی رہنما پیٹر ڈٹن نے تائید کی، جنہوں نے کہا: "ہمارے ملک کے لیے جو گرمجوشی [مسٹر مودی] کی ہے وہ مخلصانہ ہے"۔
بھارت سے ہزاروں کلومیٹر دور یہاں آسٹریلیا میں موجود احمد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک بھارت کو ایک "انتہا پسندانہ ریاست" کے طور پر بنتا ہوئے دیکھ کر مکمل طور پر مایوسی محسوس کر رہے ہیں۔
"بھارتی حکومت کا مشکل سے ہی احتساب کیا جاتا ہے، اور بھارتی حکومت کو غیر ملکی حکومتوں کو مشکل سے حساب دینا پڑتا ہے۔بھارت میں اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ صرف خوف میں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہاں مسلمان خود کو غیر محفوط سمجھتے ہیں۔
احمد کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ مسٹر البانی سے کیا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کہ وزیراعظم انتھونی البانیز کو چاہئے کہ وہ "[مسٹر مودی] سے کہیں کہ وہ ہندو انتہا پسند گروپوں کو، جو بے گناہ مسلمانوں کا قتل جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کا حساب دیں۔"
"اگر چہ [مسٹر مودی] گجرات میں ہونے والے فسادات کی ذمہ داری تو قبول نہیں کریں گے مگر انہیں چائیے کہ کم از کم پورے بھارت کو ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہونے سے روکیں۔"

شئیر
تاریخِ اشاعت 9/03/2023 2:48pm بجے
تخلیق کار Finn McHugh
پیش کار Rehan Alavi
ذریعہ: SBS