آکسفورڈ، ہاورڈ اور ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی کی ایک بین القوامی ٹیم نے انٹرنیٹ کے ذہن پر اثرسے متعلق ایک اہم ریسرچ کی ہے۔
جرنل آف ورلڈ سائیکیٹری میں جاری کردہ اس ریسرچ کے مطابق انٹرنیٹ کا استعمال ہماری یاد رکھنے کی صلاحیت، کام پر توجہ اور لوگوں سے بات چیت کو تبدیل کرسکتا ہے۔
ریسرچ کے مرکزی مصنف اور ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی کے ہیلتھ ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے سینئیر ریسرچر، ڈاکٹر جوزف فرتھ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال ہمارے ذہن کے افعال کو متاثر کرسکتا ہے۔
" نوٹیفیکیشن اور اسکرین پر ہر لمحے آنے والے پیغامات ہماری توجہ کو تقسیم رکھتے ہیں، جس کے باعث کسی ایک کام پر توجہ رکھنے کی صلاحیت میں کمی آسکتی ہے۔
انٹرنیٹ پر ہمیں چند کلکس کے بعد ہی ہر طرح کی معلومات بڑی آسانی سے مل جاتی ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے پاس دنیا کی معلومات کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جو ہماری معلومات کو جمع کرنے، اس کو اہمیت دینے اور اس کے ساتھ سوسائیٹی کے علم میں بھی بڑی حد تک تبیدلی لارہا ہے۔"
ریسرچ کے مطابق دماغی ساخت ایک طویل عرصے میں تبدیل ہوتی ہے، لیکن ایم آر آئی اسکین کے مطابق ان لوگوں کی دماغی سرگرمیوں میں زیادہ تبدیلی آرہی ہے جو لوگ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کررہے ہیں۔
"اب یہ نہیات ضروری ہوگیا ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے سماج پر اثرات کو جاننے کی کوشش کریں تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ کیا تبدیل ہورہا ہے اور کیا نہیں۔"
رپورٹ کے سینئر مصنف، ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی کے پروفیسر جیروم سیریس کو انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کے باعث کچھ خدشات ہیں۔
" انٹرنیٹ کے ذہن کو مسلسل بھیجے جانے والے سگنل یا اسٹیمیولائے توجہ کو تقیسم کرتے ہیں جو کئی مسائل کو پیدا کرسکتا ہے۔
توجہ بٹنا اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا سوشل میڈیا سے منسلک ہوجانا نہ صرف ذہنی ساخت اور ذہنی افعال کو بدل سکتا ہے بلکہ معاشرے کو بھی تبدیل کرسکتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے مصنف ڈاکٹر جاش فرتھ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ نے ہمارے لوگوں سے بات چیت کے انداز کو بھی بدل دیا ہے۔
"اب یہ نہیات ضروری ہوگیا ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے سماج پر اثرات کو جاننے کی کوشش کریں تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ کیا تبدیل ہورہا ہے اور کیا نہیں۔"