KEY POINTS:
- وزیر داخلہ کلیئر او نیل نے آسٹریلیا کے مائگریشن کے نظام پر دوبارہ نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
- انھوں نے خبردار کیا ہے کہ 'مستقل عارضی' حالات تارکین وطن اور معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
- • محترمہ او نیل نے کہا کہ بین الاقوامی طلباء اور ہنر مند افراد کیلیے آسٹریلیا پہنچنا اور یہاں رکنا آسان ہونا چاہیے۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کو "مستقل طور پر عارضی" مائگریشن سے کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے، اور بیرون ملک سے آئے ایسے ہنرمند افراد جو یہاں پہلے سے ہی موجود ہیں ان کے ہنر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مواقع فراہم کرنے چاہیے۔
کلئیر او نیل نے آسٹریلیا کے مائیگریشن کے نظام پر دوبارہ نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے ہنر مند تارکین وطن افراد کی کمی کو پورا کرنے میں آسانی ہوگی، اور ہونہار بین الاقوامی طلبہ کے لیے زیادہ مدت کیلیے آسٹریلیا میں رہنا ممکن ہوگا۔
اسکے علاوہ بدھ کو ہونے والے آسٹریلین فنانشل ریویو کی ورک فورس سمٹ سے خطاب میں محترمہ او نیل نے خبردار کیا کہ آسٹریلیا کے مائگریشن نظام کو ٹھیک کرنا کم از کم "پانچ سالہ منصوبہ" ہے اور پچھلی حکومت کی جانب سے غلط پالیسیوں کے باعث ہمیں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا کے مقابلے میں آسٹریلیا کا نظام بہت سخت اور پیچیدہ ہے جس کے باعث ہم بہت سے ہونہار افراد سے محروم ہوجاتے ہیں۔
"انھوں نے کہا کہ یہ نظام ٹوٹا ہوا ہے۔ یہ اسٹریٹجک نہیں ہے۔ یہ پیچیدہ، مہنگا اور سست ہے۔ یہ کاروباری، تارکین وطن یا ہماری آبادی کے لیے ڈیلیور نہیں کر رہا۔"
آسٹریلیا عارضی طور پر مقیم افراد پر کتنا انحصار کرتا ہے؟
محترمہ اونیل نے آسٹریلیا کی جانب سے عارضی کام پر انحصار کو کاروباری صنعت کیلیے "بہت بڑا موقع" قرار دیا جس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے سابق کولیشن حکومت کی جانب سے عارضی مائگریشن میں تیزی، اور پرماننٹ ریزیڈنسی کے کام میں سست روی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ عارضی مائیگریشن پروگرام میں حیران کنُ تبدیلی دیکھنے میں آئی جس نے سماجی اور اقتصادی اخراجات میں اضافہ کیا، لیکن اگر بروقت مناسب پالیسی پر بحث کی جاتی اور اس میں "غفلت" نہ برتی جاتی تو نتائج مختلف ہوتے۔

A number of industries are facing a skills shortage. Source: AAP, Getty
انہوں نے کہا، "اب ایک کم ہنر مند، عارضی تارکین وطن کے لیے آسٹریلیا آنا نسبتاً آسان ہے، لیکن ایک اعلیٰ ہنر والے افراد کیلیے آسٹریلین مائگریشن کا نظام مشکل اور سست ہے۔ اسلیے تارکین وطن افراد کیلیے یہاں آنا پرکشش نہیں ہے کیوںکہ ہمارہ نظام پیچھے رہ گیا ہے۔
تو حکومت کس پر توجہ دے رہی ہے؟
محترمہ او نیل نے بین الاقوامی طلباء کو "بڑے غیر استعمال شدہ منافع" کے طور پر بیان کیا، لیکن متنبہ کیا کہ بہت سے لوگوں کو گریجویشن کے بعد آسٹریلیا چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 40 فیصد افراد اپنی اہلیت سے کم ہنر والی ملازمتوں میں کام کرنے لگتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ آسٹریلیا کے پاس انہیں وسیع تر افرادی قوت میں ضم کرنے کے لیے نظام کا فقدان ہے۔
اس نے نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر طبیعیات برائن شمٹ کا حوالہ دیا جو اے این یو کے وائس چانسلر بننے سے پہلے 1994 میں ہجرت کر گئے تھے۔
برائن کا ویزہ چار دنوں میں پراسیس ہو گیا تھا۔ آج کے شاندار نوجوان فلکیاتی طبیعیات دانوں کو ویزے کیلیے ایک سال انتظار کرنا پڑتا ہے اور ہزاروں ڈالر پہلے سے ادا کرنے پڑتے ہیں، سوچیں اس سے آسٹریلیا کو کتنا نقصان ہوتا ہوگا۔
بیرون ملک قابلیت کی شناخت کو تیز کرنا بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
محترمہ او نیل نے کہا کہ ملک بھر میں نرسوں کی "شدید کمی" کے باوجود، ویزا سسٹم کا مطلب ہے کہ اہل غیر ملکیوں کو 20,000 ڈالر تک ادا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان قابلیت کو تسلیم کروانے کے لیے 35 ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا، "اس وقت، یہ سسٹم آسٹریلیا کو ایسے ہنرمند افراد کے لیے غیر کشش منزل بنا دیتا ہے جن کی ہمیں واقعی ضرورت ہے۔"
عارضی مائگریشن کا کیا اثر ہوتا ہے؟
محترمہ او نیل نے کہا کہ لیبر ایسی پالیسیوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو "مستقل طور پر عارضی" حالات پیدا کرتی ہیں۔
ایسے حالات تارکین وطن افراد کو آسٹریلیا میں اپنے پیر جمانے نہیں دیتے، وہ اپنی تعلیم میں سرمایہ کاری نہیں کر پاتے اور کسی قسم کا قرضہ لینے سے بھی قاصر ہوتے ہیں۔
"جسکے باعث وہ اپنا زیادہ تر وقت فارم بھرنے میں ضائع کرتے ہیں اور مختلف قسم کے عارضی ویزوں کے ذریعے اپنا سفر جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نہ تو ان کے لیے اچھا ہے اور نہ ہی ملک کیلیے۔"
سیاق و سباق کیا ہے؟
کووڈ کی وبائی بیماری نے صحت اور عمر رسیدہ نگہداشت کے شعبوں سے لے کر علاقائی کھیتی کے کام تک متعدد علاقوں میں افراد کی قلت میں اضافہ ہوا ہے۔
کولیشن اور لیبر دونوں نے عمر رسیدہ نگہداشت کے شعبے کی صورتحال کو حکومت کیلیے ایک "بحران" قرار دیا۔
مئی 2022 کے انتخابات سے پہلے، لیبر نے عہدہ سنبھالنے کے 12 ماہ کے اندر ہر آسٹریلوی عمر رسیدہ کیئر ہوم میں 7/24 ایک قابل نرس رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ محترمہ او نیل نے اس وقت اعتراف کیا کہ اس عہد کا مطلب یہ ہے کہ " اضافی نرسوں کو تلاش کرنے میں صرف ایک سال سے زیادہ وقت لگے گا جن کی ہمیں ضرورت ہوگی۔"
گزشتہ ستمبر میں لیبر کی جاب سمٹ میں، تاجروں اور کاروباری نمائندوں نے ایک بڑے مستقل پروگرام کا مطالبہ کرتے ہوئے شکایت کی کہ ویزے کی سختی کا مطلب ہے کہ ہم بہت سے قابل افراد کو دوسرے ممالک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
حکومت نے آسٹریلیا کے مائگریشن کے نظام کا وسیع پیمانے پر جائزہ بھی لیا ہے، جس کی رپورٹ اس سال کے آخر میں شائع کی جائے گی۔ یہ مستقل مائگریشن کے "مثالی سائز اور ساخت" پر غور کرے گی، اور اس بات کا جائزہ لے گی کہ کون سی پالیسی تبدیلیاں آسٹریلیا کو ہنر مند افراد کیلیے زیادہ پرکشش بنا دے گی۔