ایس بی ایس چائینز کی درخواست پر آسٹریلین ادارہ برائے شماریات کی جانب سے حاصل کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ آسٹریلیا میں چین سے آئے ہوئے تارک وطن افراد میں اوسطا 109لڑکوں کے مقابلے میں100 لڑکیوں کی پیدائش ہوئی ہے ۔
یہ تناسب 215،775 پیدائشوں سے لیا گیا، اورآسٹریلیا میں سب سے زیادہ پیدائشی تناسب ہے ، جو عام طور پر 100 لڑکیوں کے لئے 7۔105 لڑکے رہا ۔
ان اعداد و شمار میں ایسےجوڑوں میں خواتین کی نسبت مردوں کی پیدائش کو ناپا گیا ہے جن میں سے ایک یا دونوں کا تعلق چین سے ہو۔
اقوام متحدہ کی "اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن رپورٹ " کے مطابق بین القوامی طور پرپیدائش کے لئے صنف کی معیاری شرح 100 لڑکیوں کے مقابلے میں 104-106 لڑکے ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 105 سے نیچے یا اوپر جانے والی کوئی بھی تعداد ، صنف کے انتخاب کے باعث ہے ۔
"یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ" میں رپورٹ ان ٹو سیکس سلیکشن ان ایشیاء کے شریک مصنف اور مشہور ڈیموگرافر کرسٹوفی گویلموٹوکے مطابق آسٹریلین ادراہ برائے شماریات کی جانب سے جس تفریق پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ اعداد و شمار سے واضح کرتی ہے کہ لڑکوں کے حق میں صنف کا انتخاب آسٹریلیا کی اس کمیونٹی میں رائج ہے۔
ہم محفوظ انداز میں کہہ سکتے ہیں کہ اس تارک وطن آبادی میں پیدایش کے اعتبار سے صنفی عدم توازن موجود ہے ۔ انہوں نے ایس بی ایس چائینیزکو بتایا ۔

Source: SBS Chinese
سال 2003 سے 2019 کے دوران آسٹریلیا میں ایسی 3730 بچیوں کی پیدائش کا " غائب " ہونا ریجسٹرڈ ہوا ہے جن کے دونوں میں سے ایک یا دونوں والدین کا تعلق چین سے تھا۔

Dr Christophe Z. Guilmoto Source: UNPFA United Nations
یہ نظریہ فلینڈر یونیورسٹی میں پاپولیشن اسٹڈی کے ماہر ایسوسی ایٹ پروفیسر گوردسورما نے شئیر کیا ۔
109 بچوں کی پیدائش کا یہ صنفی تناسب پوری دنیا میں دیکھے جانے والے تناسب سے واضح طور پر زیادہ ہے
ڈاکٹر داسورما نے 215،775 کے مجموعی اعداد میں 109 کی شرح کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غالبا ان تارک وطن آسٹریلینز میں پیدائش سے قبل صنف کا انتخاب وقوع پا رہا ہے ۔
لوگ صنف کیسے منتخب کر رہے ہیں ؟
بچوں کی صنف منتخب کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔
جبکہ آئی وی ایف اس طریقے میں معاون ہے ،" صنف کی بنیاد پر اسقاط حمل " آسٹریلیا کی چائینز کمیونٹی میں زیادہ معروف ہے ۔ ڈاکٹر گویلموٹو نے بتایا ۔
ان کا کہنا تھا کہ مرد وارث کی پیدائش یقینی بنانے کے لئے صنف کی بنیاد پر اسقاط حمل وہ طریقہ ہے جو چین میں استعمال کیا جاتا ہے ۔

Male and female births from Chinese parents in Australia (2003 - 2019). Source: SBS with ABS data
اگرچہ بچے کی جنس کی وجہ سے حمل ختم کروانا آسٹریلیا میں ممنوع ہے لیکن انفرادی طور پر حمل کے انتہائی شروع میں اسقاط منتخب کیا جا سکتا ہے جس کے لئے غیر جارحانہ طور پر بچوں میں پیدائش سے قبل جنسی یا جنیاتی عوارض کے تعین کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
حمل کے آغاز میں جب اسقاط حمل نسبتا آسان ہو، بچے کی جنس معلوم ہونے پر والدین مختلف دلائل دے کر اسقاط حمل چن سکتے ہیں ۔
ایک آسٹریلین جی پی ڈاکٹر کمار٭ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایسے جوڑوں میں ایک خاص طریقہ عمل کی نشاندہی کر سکتی ہیں جو جنس معلوم ہونے پر اسقاط حمل کی اطلاع دیتے ہیں ۔
انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے ایسے جوڑے دیکھے ہیں جو دوران حمل جنس معلوم کرنے کے بعد کلینک آتے ہیں تو دوسرے جنس کا حمل ٹہر چکا ہوتا ہے ۔
انہوں نے بتا یا کہ وہ (جوڑے) اکثر توجیہ دیتے ہیں کہ ان کا اسقاط ہو گیا تھا اور اب وہ دوبارہ حاملہ ہیں ۔
ڈاکٹر کمار نے بتایا کہ مریض اکثر اپنے جی پیز کو حمل ختم کروانے سے متعلق نہیں بتاتے اور قدرتی اسقاط حمل کی توجیہہ پیش کرتے ہیں تاکہ جنس کے انتخاب سے متعلق کسی بھی شبہے سے بچ سکیں۔
صنف کے انتخاب پر قانونی اور اخلاقی تقاضے اس وقت نافذ نہیں ہوتے جب یہ کسی طبی بنیاد پر کیا جائے ۔
ممنوع لیکن چین میں وسیع طور پر رائج
چین میں صنف کا انتخاب غیر قانونی ہونے کے باوجود یہ طریقہ جاری ہے ۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ حکومت کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لئے کئی دہائیوں سے پیش کردہ منصوبوں کے باوجود چین میں بچوں کی پیدائشی صنف میں عدم توازن موجود ہے اور اس سلسلے میں 1986 میں چین کی وزارت صحت اور چینی قومی خاندانی منصوبہ سازی نے مشترکہ طور پر پروہبیشن آف آربیٹری فیوٹل ڈٹرمینیشن نو ٹس بھی جاری کیا۔
"نیشنل انٹر سینسز سروے 2005" کے مطابق چین کے صوبوں ژیانگژی اور ہنان میں ایک سے چار سال کی عمر کے بچوں میں لڑکے اور لڑکی کا تناسب 140 سے زائد ہے ، جبکہ انہوئی، گوانگڈونگ،ہونان اور ہینن میں یہ تناسب 130 سے اوپر اور سات صوبوں میں 120 سے 129 کے درمیان ہے ۔
یہ مسئلہ جو ابتدائی طور پر کچھ صوبوں کا تھا اب اس نے دیہی علاقوں سے شہری علاقوں تک پھیل کرپورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
چین میں تناؤ کی شرح کی تاریخ کا تجزیہ کرنے والے ادارے چینی آبادی اور ترقیاتی مرکزکی جانب سے سال 2021 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ، چین کے 32 صوبوں میں سے 19 میں سال 1982 میں صنفی پیدائش کا تناسب متوازن تھا جبکہ سال 2015 میں صرف ایک صوبے میں یہ توازن موجود ہے
کیرولائن پاپولیشن سینٹر کی ایک اور رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 1991 سے 2005 کے دوران ایک بچہ پالیسی کے نتیجے میں 100 لڑکیوں پر 7 اضافی لڑکے پیدا ہوئے ۔

China introduced a three-child policy in 2021 to alleviate problems relating to the ageing population. Source: LightRocket
تاہم چین کے آبادی اور ترقیاتی مرکز نے صنفی پیدائش میں متوازن شرح کا مثبت رجحان ظاہر کیا ہے البتہ یہ بات بھی تجویز کی ہے کہ صنف کا انتخاب اب بھی ہو رہا ہے ۔
رپورٹ میں جن چند چیلنجز کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں چین میں علاقائی ترقی میں پائی جانے والی تفریق ، پدرانہ اقتدار کی تاریخی روایت کے ساتھ ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی وجہ سے صنفی تعصب پر منبی جنس کا آسان انتخاب ہے ، جس کی پہچان بھی مشکل ہے ۔
یو این ایف پی اے کے مطابق دنیا کے کچھ حصوں بشمول انڈیا اور چین میں صنفی انتخاب ایک تشویشناک صورتحال ہے جو ان علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کے کم تر حیثیت کی عکاسی کرتی ہے ۔
اس ادارے کی تجویز کے مطابق جہاں بھی صنف کا انتخاب لڑکیوں کے خلاف ہے ، وہ ایسی دقیانوسی قدیم اقدار کو تقویت دیتا ہے جو خواتین کی قدر کو کم کرتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا کے کچھ علاقوں میں لڑکوں کو ترجیح دینا صنفی عدم مساوات کی علامت ہے جو کئی ممالک بشمول بھارت ، پاکستان ، ویت نام ، جنوبی کوریا ،آزربائیجان ، آرمینیا ، جورجیا ، البینیا اور مونٹیگرو میں موجود ہے ۔
یونیورسٹی آف سڈنی میں بائیو اتھییسٹ پروفیسر اینسلے نیوسن کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو آئی وی ایف کو غیر طبی وجوہات کے ساتھ جنسی انتخاب میں استعمال کرنے کے قائل ہیں اب اس بات پر متفق ہیں کہ ان ممالک میں پائی جانے والی جنسی تفریق نامناسب ہے جسے فوری طور پر درست کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔
پروفیسر نیوسن کا ماننا ہے کہ جبکہ دنیا کے مختلف ممالک میں آئی وی ایف اور جنسی انتخاب سے متعلق تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے ، آسٹریلیا میں ان اقدامات کو تسخیر نہ کرتے ہوئے اس سے صرف نظر کرنا قومی اور بین الاقوامی سطح پر آبادیاتی نظام پر اثر ڈال سکتا ہے ۔
کچھ چینی خاندانوں میں بیٹے کو ترجیح
یونیورسٹی آف نیو ساوتھ ویلز میں چائینز اینڈ ایشین اسٹڈیز کے سینئر لیکچرر ڈاکٹر پین ونگ کا کہنا ہے کہ چین کی ثقافت میں بیٹوں کو نسل چلانے والا تصور کیا جاتا ہے اور والد کے نام سے نسل چلتی ہے ۔
ڈاکٹر وانگ نے بتایا کہ چین کے دیہی علاقوں میں شہری علاقوں کی نسبت صنف کا انتخاب کرنا زیادہ عام ہے جس کی وجہ دیہی علاقوں میں پدرانہ ثقافت کا زیادہ مضبوط ہونا بھی ہے ، وہ بیٹا پیدا ہونے تک بچے پیدا کرتے رہتے ہیں ۔
بیٹا پیدا ہونے کو کچھ لوگ خود پر عائد ذمہ داری تصور کرتے ہیں کیونکہ بیٹے کو نسل چلانے کا ذمہ دار سمجھا جاتا یے اور وہ جسمانی طور پر مضبوط ہونے کے باعث زراعت اور دیگر مزدوری والے کاموں میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں جو کسی بھی دیہی خاندان میں معاشی خوشحالی کی ضامن ہے ۔
ڈاکٹر وانگ کا کہنا ہے کہ چین کے شہری علاقوں اور نوجوان نسل میں یہ طریقہ اب بہت کم رائج ہے جس کی وجہ تعلیمی شعور کے ساتھ ان افراد کے لئے "دلہن کی قیمتوں" میں شدید اضافہ ہے جن کے بیٹے ہیں ۔
بیٹیاں بھی اپنے بزرگ والدین کا خیال رکھنے میں ماضی کی نسبت اہم کردار ادا کر رہی ہیں ۔ بالخصوص خواتین کی معاشی اور سماجی حیثیت میں اضافے کے بعد ۔
سڈنی میں ماہر امراض نسواں ڈاکٹرکیرن کونگ نے وضاحت کی کہ جب چین میں " ایک بچے کی پالیسی" نافذ تھی اس وقت خاندان کا نام چلانے کے لئے لڑکوں کی پیدائش کو ترجیح دی جاتی تھی ۔
ڈاکٹر کونگ نے اپنا ذاتی تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ جب چینی جوڑوں کو علم ہوتا ہے کہ بچے کی جنس ان کی خواہش کے مطابق نہیں تو وہ اداس ہو جاتے ہیں لیکن وہ اپنے حمل کے بارے میں خوش ہوتے ہیں ۔
میلبرن میں موجود ماہر امراض نسواں اور تولید ڈاکٹر ایلس ہوانگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے جنس پتہ چلنے پر بہت کم جوڑوں کو اداس ہوتے دیکھا ہے ۔
یہ وقتی افسوس ہو سکتا ہے لیکن بہت جلد متوقع والدین کے چہروں پر خوشی آجاتی ہے ۔
سڈنی کے ویسٹمیڈ پرائیوٹ ہسپتال میں ماہر امراض نسوان ڈاکٹر چین چائے چوا کا کہنا ہے کہ چینی جوڑوں میں اگرچہ بیٹے کی پیدائش اضافی خوشی کا باعث ہوتی ہے لیکن آسٹریلیا میں اسکلڈ مائیگریشن پر آنے والے چینی افراد میں اعلیٰ تعلیم کے باعث ایسا ہونا بہت مشکل ہے ۔ جبکہ وہ چین میں اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہ رہے ہوتے جن کے (والدین کے) نظریات اپنے بچوں سے یکسر مختلف ہو سکتے ہیں ۔
ذہنی صحت پر اثرات
ماہر نفسیات جناب نورس ما کا کہنا ہے کہ چینی تارک وطن خصوصی طور پر دیہی چین سے تعلق رکھنے والے افراد میں ترجیحی پیدائش کے حوالے سے مایوسی پیدا ہو سکتی ہے ۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سال 1970 سے 1980 کی دہائی میں چین کے شہری علاقوں میں پیدا ہونے والے افراد اس حوالے سے کم دباؤ محسوس کرتے ہیں ۔
جناب ما کا کہنا ہے کہ یہ دباؤ بچے کی پیدائش سے پہلے سے لے کر بعد از پیدائش دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں زیادہ تر کیسز لڑکی کی پیدائش سے متعلق ہیں ۔
اگر انتخاب ممکن ہو، تو وہ لڑکے کی پیدائش کو ترجیح دیں
جنس سے متعلق امید پیدا ہونے والے بچے پر طویل المعیاد اثرات رکھتی ہے ۔ انہوں نے بتایا ۔
بچے عمومی طور پر نو عمری تک یہ بات نہیں سمجھ پاتے کہ ان کے چینی دادا دادی جنسی طور پر متعصب ہیں ۔ اور ایک مرتبہ یہ ادراک ہونے پر وہ محبت کا احساس کھو دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا۔
بزرگ رشتہ دار واضح طور پر اپنی مایوسی ظاہر نہیں کرتے بلکہ بالواسطہ موازنہ کرتے ہیں
مثال کے طور پر وہ ایک ایسی خاتون کو جس کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی ہو بتاتے ہیں کہ ان کے کسی اور رشتے دار کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے ، اس طرح مذکورہ خاتوں کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کو نیچا دیکھایا یے ۔
بچے پر صنفی انتخاب کے اثرات پہت سے پیشہ ور افراد کے لئے باعث تشویش ہیں ۔
میلبرن میں چینی کونسلر اور ذہنی صحت کی سماجی کارکن محترمہ اڈاپون کا کہنا ہے کہ چینی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے پہلے بچے کی پیدائش پر ہی جنس جاننے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ۔
انہیں ان لڑکیوں میں دباؤ سے متعلق تشویش ہے جو اپنے دادا دادی کارجحان لڑکے رکھنے والے گھر کی جانب دیکیتی ہیں ۔
اپنے خاندانوں کے لئے قابل فخر بننے کی کوشش میں لڑکیاں اپنے نصابی نتائج میں اضافی کارکردگی دیکھانے کی کوشش کرتی ہیں ۔
جنسی ترجیح سے متعلق دقیانوسی اقدار شادیاں ٹوٹنے کی وجہ بن سکتی ہیں ۔ محترمہ پون نے بتایا کہ یہ علیحدگی کے بعد بچوں کی تحویل کے معملات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
طلاق کے بہت سے کیسسز میں مرودوں کو عمومی طور پر بیٹیوں کی پرواہ نہیں ہوتی ، لیکن بچہ اگر لڑکا ہے تو تحویل اہم ہو جاتی ہے کیونکہ اسے خاندان کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے ۔ انہوں نے بتایا۔